تشریح:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے۔ کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے۔ کہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام بھی آئے۔ کیونکہ قرآن میں ہے۔ (فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) (النحل۔98/16) اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ (أعوذ بالسمع العلیم) نہیں ہے۔ یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے۔ دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابو دائود کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہوگی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے۔ جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اوراس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال أبو داود: وهذا حديث منكر . وضعفه ابن القطان وابن القيم،وأعلاه بمن دون حميد) .إسناده: حدثنا قطنُ بن نُسيْرٍ : ثنا جعفر: ثنا حُميْدٌ الأعرج المكيُ...قال أبو داود: وهذا حديث منكر، قد روى هذا الحديث عن الزهري جماعةٌ لم يذكروا هذاالكلام على هذا الشرح. وأخاف أن يكون أمر الاستعاذة من كلام حميد !قلت: هذا كلامه عقب الحديث. وتعقبه ابن القيم في تهذيب السنن (1/379) ، فقال: قال ابن القطان: حميد بن قيس أحد الثقات. وإنما علته أنه من رواية قطنِ
ابن نُسيْرٍ عن جعفر بن سليمان عن حميد. وقطن- وإن كان روى عنه مسلم-فكان أبو زرعة يحمل عليه، ويقول: روى عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن أنسأحاديث مما أنكر عليه. وجعفر أيضاً مختلف فيه. فليس ينبغي أن يحمل على حميد- وهو ثقة بلا خلاف- في شيء جاء به من يختلف فيه .والحديث أخرجه البيهقي (2/43) من طريق المصنف