تشریح:
1۔ یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔ حدیث 866 اس کی مویئد ہے۔
2۔ قیامت کے روز اعمال کا محاسبہ حق ہے۔
3۔ شہادتین کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے۔ اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا۔ (سنن نسائی، حدیث۔ 466) جب کہ حقوق العباد میں سب سے پہلے خونوں کا حساب لیا جائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث:6533 وصحیح مسلم، حدیث: 1678)
4۔ فرائض کی ادائگی میں کسی بھی تقصیر سے انسان کو محتاط رہنا چاہیے۔ نیز نوافل کا بھی خوب اہمتام کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان ہی سے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔
5۔ نوافل خصوصا سنن راتبہ (موکد) رسول اللہ ﷺکی سنت متواترہ ہیں۔ سفر کے علاوہ آپ نے کبھی انھیں ترک نہیں فرمایا بلکہ بعض اوقات تاخیر ہونے پر ان کی قضا بھی ادا کی ہے۔ کچھ صالحین کا کہنا ہے کہ سنن و نوافل کی پابندی فرائض پر پابندی کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے۔ اور جو شخص سنن میں غفلت کرتا ہے۔ عین ممکن ہے فرائض میں غفلت کا مرتکب ہوجائے۔
6۔ وہ احادیث جن میں رسول اللہ ﷺنے کچھ نو مسلم بدووں کو صرف فرائض کی پابندی کے عہد پر انہیں جنت کی خوش خبری دی۔ وہ اول تو ابتدائے اسلام کی بات ہے۔ یہی لوگ جوں جوں حق کو سمجھتے گئے۔ نوافل میں بہت آگے بڑھتے چلے گئے۔ جیسے کہ ان کی سیرتیں واضح کرتی ہیں۔ دوسرے رسول اللہ ﷺکی صحبت مبارکہ سے انھیں ایسا تزکیہ حاصل ہوجاتا تھا۔ کہ ان کے فرائض ہی سے اس اعلیٰ پائے کہ ہوجاتے تھے کہ وہ نوافل بھی پڑھتے تو ان کی کامیابی کی ضمانت اور خوشخبری زبان رسالت سے جاری ہوگئی تھی۔ لہذا دیگر مسلمانوں کا اس معاملے میں اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور صرف فرائض پر تکیہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ بلکہ یوم الحسرۃ کو پیش نظررکھتے ہوئے مذید در مذید تقرب الیٰ اللہ۔ کو شش کرنی چاہیے۔ وباللہ التوفیق۔ ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر سنتیں رہ جایئں تو ان کی قضا کرنا واجب نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وصححه الحاكم والذهبي وابن عبد البر وحمئنه الترمذي إسناده: حدثنا يعقوب بن إبراهيم: ثنا إسماعيل: ثنا يونس عن الحسن عن أنس بن حَكِيمٍ الضَبيِّ.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أنس بن حكيم الضبي؛ وهو مجهول، كما قال ابن القطان وغيره. وذكر في ترجمته من التهذيب أنه اختلف فيه على الحسن على وجوه ذكرها؛ منها الوجه الآتي فيالكتاب عقب هذا.والحديث أخرجه البيهقي (2/386) ، وابن عبد البر في التمهيد (24/80) -وصححه- من طريق المصنف.وأخرجه الحاكم(1/262) ، وعنه البيهقي من طريق أخرى عن يعقوب بن إبراهيم الدوْرَقِي... به، وقال: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي!وأخرجه أحمد (2/425) : ثنا إسماعيل... به.وتابعه علي بن زيد عن أنس بن حكيم الضبي ... به مرفوعاً مختصراً؛ ولم
يشك.أخرجه ابن ماجه (1/435- 436) ، وأحمد (2/295) .وعلي بن زيد: هو ابن خدْعان؛ وفيه ضعف، فلا بأس فيه في المتابعات.ورواه قتادة عن الحسن فقال: عن خريثِ بن قَبِيصَةَ قال:قدمت المدينة، فقلت: اللهم! يَسِّرْ لي جليساً صالحاً! قال: فجلست إلى أبي هريرة، فقلت: إني سألت الله أن يرزقتي جليساً صالحاً، فحدِّثتي بحديث سمعته من رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ لعل الله أن ينفعتي به! فقال: سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول... فذ كره.أخرجه النسائي (1/81) ،والترمذي (1/269- 270) ، وقال النسائي: خالفه أبو العوام... ، ثم ساق من طريقه عن قتادة عن الحسن بن زياد
عن أبي رافع عن أبي هريرة... مرفوعاً به.
قلت: وأبو العوام: اسمه عمران بن دَاوَر؛ وهو صدوق يهم؛ فرواية همام- وهو ابن يحيى بن دينار- أصح؛ لأنه أوثق منه، احتج به الشيخان. وقال الترمذي: حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير هذا الوجه عن أبي هريرة .ومن وجوه الاضطراب التي أشار إليها ابن حجر آنفاً: رواية حُمَيْد عن الحسن عن رجل عن أبي هريرة؛ وهو الوجه الأتي: