تشریح:
1۔ مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہوجائے۔ تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے۔ اور بالخصوص آئمہ قوم اور ذی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔
2۔ امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔
3۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺکے قابل اعتماد نائب تھے۔ اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انھیں منصب خلافت کےلئے منتخب کیا۔
4۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے۔ کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺکےلئے تھی۔ امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بے چینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجایئں۔
5۔ لاعلمی سے جو عمل ہوجائے وہ معاف ہے۔ جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجایئں۔ مگرعلماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔ تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
6۔ اثنائے قراءت میں حمد اوردعا کےلئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه ابن خزيمة، وابن حبان، والبخاري بنحوه، وأبو عوانة) . إسناده: حدثنا عمرو بن عَوْنٍ: أخبرنا حماد بن زيد عن أبي حازم عن سهل ابن سعد قال... قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه أحمد (5/332) : ثنا عفان: ثنا حماد بن زيد... به. ثم قال: ثنا يونس بن محمد: ثنا حماد: حدثني عبيد الله بن عمر عن أبي حازم عن سهل بن سعد. قال حماد: ثم لقيت أبا حازم فحدثني به، فلم أنكر مما حدثني شيئاً قال: كان قتال... الحديث. وأخرجه أبو عوانة (2/233) من طريق اخرى عن حماد بن زيد عن عبيد الله ابن عمر قال: حدثني أبو حازم عن سهل بن سعد... به لكنه؛ لم يسق لفظه. وأخرجه البخاري (9/61) من طريق أبي النعمان: حدئنا حماد: حدئنا أبو حازم المديني عن سهل... به نحوه. دون قوله لبلال: إن حضرت... فليصل بالناس . وأخرجه ابن خزيمة (853) ، وابن حبان (369) بالزيادة.