Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Saying 'Bismillah' While Starting Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
102.
جناب ربیعہ (ربیعہ الرإي ایک تابعی اور مفتی مدینہ) نے نبی کریم ﷺ کی حدیث ’’جو شخص وضو کے شروع میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں۔‘‘ کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وضو اور غسل کرتا ہے اور وضو سے نماز کی اور غسل سے طہارت کی نیت نہیں کرتا (ایسے شخص کا وضو اور غسل درست نہ ہو گا) ۔
تشریح:
(1) وضو کےشروع میں بسم اللہ کہنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نےصحابہ کرام سےفرمایا: [ بسم اللہ] کہتے ہوئے وضوکرو۔ (سنن النسائي، الطہارة، حدیث: 78) اس حدیث سےمعلوم ہواکہ بسم اللہ کےعلاوہ الفاظ سےوضو کی ابتداکرنا درست نہیں ہے۔جوحضرات ’’ بسم اللہ ،، کےسوا کوئی دوسرے الفاظ کہنے کو درست خیال کرتے ہیں تو یہ بلادلیل اورمذکورہ حدیث کے خلاف ہے۔ (2) اگر بسم اللہ بھول گئی اور وضو کے دوران میں یاد آئی توفوراً پڑھ لے، تاہم وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بھول چوک معاف ہے۔ (3) وضو اورغسل میں نیت بھی لا زم ہے۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب ربیعہ (ربیعہ الرإي ایک تابعی اور مفتی مدینہ) نے نبی کریم ﷺ کی حدیث ’’جو شخص وضو کے شروع میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں۔‘‘ کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وضو اور غسل کرتا ہے اور وضو سے نماز کی اور غسل سے طہارت کی نیت نہیں کرتا (ایسے شخص کا وضو اور غسل درست نہ ہو گا) ۔
حدیث حاشیہ:
(1) وضو کےشروع میں بسم اللہ کہنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نےصحابہ کرام سےفرمایا: [ بسم اللہ] کہتے ہوئے وضوکرو۔ (سنن النسائي، الطہارة، حدیث: 78) اس حدیث سےمعلوم ہواکہ بسم اللہ کےعلاوہ الفاظ سےوضو کی ابتداکرنا درست نہیں ہے۔جوحضرات ’’ بسم اللہ ،، کےسوا کوئی دوسرے الفاظ کہنے کو درست خیال کرتے ہیں تو یہ بلادلیل اورمذکورہ حدیث کے خلاف ہے۔ (2) اگر بسم اللہ بھول گئی اور وضو کے دوران میں یاد آئی توفوراً پڑھ لے، تاہم وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بھول چوک معاف ہے۔ (3) وضو اورغسل میں نیت بھی لا زم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالعزیز دراوردی کہتے ہیں کہ ربیعہ نے ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حدیث : «لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ» کی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وضو اور غسل کرے لیکن نماز کے وضو اور جنابت کے غسل کی نیت نہ کرے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Explaining the tradition of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) that the ablution of a person who does not mention the name of Allah is not valid, Rabi’ah said: This tradition means that if a person performs ablution and takes a bath but does not have the intention to perform ablution for prayer and purify himself from sexual defilement, his ablution or bath is not valid.