تشریح:
1۔ مقتدیوں پرامام کی اقتداء واجب ہے۔خواہ وہ بھو ل رہا ہو۔امام کو متنبہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔
2۔ درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدہ سہوسے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
3۔ راوی حدیث حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام مالک اور بحینہ ان کی والدہ کا نام ہے۔ اس لئے محدث جب ان کا پورا نام عبدا للہ بن مالک بن بحینہ لکھتے ہیں تو ابن بحینہ کے شروع میں ہمزہ ضرور لکھتے ہیں۔ تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبد اللہ کی صفت ہے نہ کہ مالک کی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط المثيخين. وأخرجاه وكذا لبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله ابن بُحَيْنَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (1/118) . وأخرجه البخاري (3/60) ، ومسلم (2/83) ، وأبو عوانة (2/191) ، والنسائي (1/181) ، والدارمي (1/352) ، و البيهقي (2/333) ، وأحمد (5/345) من طرق أخرى عن مالك... به. وأخرجه مسلم، وأبو عوانة، والضس مذي (2/235/391) ، وابن ماجه (1/364) ، وابن حبان في صحيحه (2667- 2670) ، والبيهقي، وأحمد (5/345 و 346) ، من طرق أخرى عن ابن شهاب... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ؛ وزاد هو والشيخان وغيرهم: وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس. وأخرجه البخاري، ومسلم، وأبو عوانة، والنسائي، وابن ماجه، وابن الجارود (242) ، والدارقطني (144- 145) ، وأحمد، ومالك من طرق أخرى عن الأعرج... به.