Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Manner of The Prophet's Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
113.
عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ؓ کو دیکھا کہ ایک کرسی لائی گئی آپ اس پر بیٹھے پھر پانی کا ایک کوزہ (برتن) لایا گیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ تین بار دھویا، پھر کلی کی ساتھ ہی ناک میں پانی بھی چڑھایا۔ دونوں ایک چلو کے ساتھ۔ اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
فائدہ: اس حدیث سے ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ثابت ہوتا ہے۔ مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلوپانی لے کر کلی کی جائے اور اسی سے ناک میں پانی بھی دیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل یہی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے۔ والله أعلم(صحيح بخاري، الوضوء، حدیث: 140)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح أيضا) . إسناده: حدثنا محمد بن المثنى: حدثني محمد بن جعفر: حدثني شعبة. وهذا إسناد صحيح كسابقه؛ لكن وهم فيه شعبة فقال: مالك بن عرفطة! وإنما هو خالد بن علقمة، كما في رواية زائدة وأبي عوانة المتقدمتين، وكما في رواية كل من رواه عنه غيرهما ممن سبقت الإشارة إليه؛ وقد اتفق الحفاط- كأحمد والبخاري والترمذي وابن حبان وأبي حاتم وغيرهم- على توهيمه في ذلك؛ وحاول بعض الأفاضل المعاصرين تخطئتهم؛ ولكنه لم يأت بحجة قوية في ذلك فيُعْتَمدَ عليها ! وفي عون المعبود ما نصه: واعلم أنه ذكر الحافط المزي في الأطراف ههنا [ أي: في آخر الحديث ] عبارات من قول أبي داود، ليست موجودة في النسخ الحاضرة عندي؛ لكن رأينا إثباتها لتكميل الفائدة، وهي هذه: قال أبو داود: ومالك بكلرفطة؛ إنما هو خالد/بن علقمة/، أخطأ فيه شعبة . قال أبو داود: قالد أبو عوانة يوماً: حدتنا مالك بحرفطة عن عبد خير، فقال له عمرو الأغضف: رحمك الله اْبا عوانة! هذا خالد بن علقمة؛ ولكن شعبة مخطئ فيه، فقال أبو عوانة: هو في كتابي: خالد بن علقمة؛ ولكن قال شعبة:هو مالك بن عرفطة . قال أبو داود: حدثا عمرو بن عون قال: حدثنا أبو عوانة عن مالك بن عرفطة . قال أبو داود: وسماعه قديم . قال أبو داود: حدثا أبو كامل قال: حدثا أبو عوانة عن خالد بن علقمة؛ وسماعه متأخر، كأنه بعد ذلك رجع إلى الصواب. انتهى .
قال المزي في آخر الكلام: من قول أبي داود: (مالك بن عرفطة) إلى قول: (رجع إلى الصواب) : في رواية أبي الحسن بن العبد، ولم يذكره أبو القاسم. انتهى . قلت: ورواية أبي الحسن بن العبد هذه؛ ذكرها الحافظ أيضا في ترجمة خالد ابن علقمة من التهذيب . والحديث أخرجه النسائي (1/27) ، والطيالسي (رقم 149) ، وعنه البيهقي (1/50- 51) ، وأحمد (2/رقم989 و 1178) من طرق عن شعبة... به. وللحديث طرق أخرى عن عبد خير، انظرها في المسند (رقم 737 و 876 و 910 و 918 و 1263) ، وفي زيادات ابنه عبد الله عليه (رقم 1007 و 1008
و1013 و 1014- 1016 و 1047) ، وسيأً تي بعضها في الكتاب (رقم 153) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ؓ کو دیکھا کہ ایک کرسی لائی گئی آپ اس پر بیٹھے پھر پانی کا ایک کوزہ (برتن) لایا گیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ تین بار دھویا، پھر کلی کی ساتھ ہی ناک میں پانی بھی چڑھایا۔ دونوں ایک چلو کے ساتھ۔ اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: اس حدیث سے ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ثابت ہوتا ہے۔ مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلوپانی لے کر کلی کی جائے اور اسی سے ناک میں پانی بھی دیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل یہی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے۔ والله أعلم(صحيح بخاري، الوضوء، حدیث: 140)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے علی ؓ کو دیکھا (ان کے پاس) ایک کرسی لائی گئی، وہ اس پر بیٹھے پھر پانی کا ایک کوزہ (برتن) لایا گیا تو (اس سے) آپ نے تین بار اپنا ہاتھ دھویا پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Malik b. Ghurfatah says: I heard ‘Abd Khair say: I saw a chair was brought to ‘Ali (RA) who sat on it. A vessel of water was then brought to him. He washed his hands three times; he then rinsed his mouth and snuffed up water with one handful of water. He narrated the tradition completely.