تشریح:
1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین دین کے امین تھے۔ رسول اللہ ﷺکے متبع تھے۔ ان کے اعمال پرنظر رکھی جاتی تھی۔ اور تفصیل ودلیل بھی پوچھی جاتی تھی۔ ان کے بعد علمائے امت اس امانت کے وارث ہیں۔ لوگ ان کے کردار کو دینی نظر سے دیکھتے اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ توچاہیے کہ طلبہ دین اور علمائے شریعت صحیح سنت نبوی ﷺ کو اپنا معمول بنایئں۔تاکہ لوگوں کو صحیح عملی نمونہ ملے۔ اور اس کا اجر اللہ عزوجل ہی کے ہاں ملنے والا ہے۔
2۔ عام مسلمانوں کے بھی ذمے ہے۔ کہ مسائل واعمال میں قرآن وسنت صحیحہ کی دلیل طلب کریں۔ کیونکہ علماء کسی صورت بھی معصوم نہیں ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال الصحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن عبد العزيز بن أبي رِزْمة المَرْوَزِيُ: أخبرنا الفضل بن موسى عن عبد الحميد بن جعفر عن يزيد بن أبي حبيب عن عطاء.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رصاله ثقات رجال الصحيح ولم يخرجاه؛ وإنما أخرجا منه من طريق أخرى عن ابن عمر: الجملة الأخيرة فقط، كما تقدم بيانه قبل حديث. والحديث أخرجه البيهقي (3/240) من طريق أخرى عن الفضل بن موسى... به. ورواه الترمذي (1/402- شاكر) من طريق ابن جريج عن عطاء قال: رأيت ابن عمر صلى بعد الجمعة ركعتين، ثم صلى بعد ذلك أربعاً. وإسناده صحيح؛ إن كان ابن جريج سمعه من عطاء ولم يدلسه. وترجَّحَ الأولُ بتصريح المؤلف بسماعه منه في الحديث، كطا يأتي برقم (1038)