Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: Raising The Hands During Istisqa')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1169.
جابربن عبداللہ ؓ کا بیان ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ لوگ (بارش نہ برسنے کی وجہ سے) روتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی «اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ» ”اے اللہ! ہمیں بارش عنایت فرما، ازحد مفید، مددگار، بہترین انجام والی، جو شادابی لائے، نفع آور ہو، کسی ضرر کا باعث نہ بنے اور جلدی آئے، دیر نہ کرے۔“ سیدنا جابر ؓ نے بیان کیا کہ (اس دعا کے بعد فوراً) ان پر بادل چھا گیا۔
تشریح:
1۔ انسان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی حاجات میں ہمیشہ اللہ ہی سے دعا کرنی چاہیے۔ اور گڑگڑا کربہ تکرار دعا کرنی چاہیے۔ 2۔ اپنے صالحین سے بھی دعا کرانی چاہیے۔۔ جو کہ ایک شرعی اور مسنون وسیلہ ہے۔ 3۔ اس حدیث کے ایک نسخے میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ کہ (أتيت النبي صلی الله عليه وسلم يواكي) اس کا ترجمہ یوں ہے کہ میں آپ کی خدمت میں آیا اور اپ اپنے ہاتھوں پرٹیک لگائے ہوئے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وقال الحاكم: على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! والرواية المعتمدة في الكتاب بلفظ: أتت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بواكي) . إسناده: حدثنا ابن أبي خلف: ثنا محمد بن عبيد: ثنا مسْعَرٌ عن يزيد الفقير عن جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط الشيخين؛ غير ابن أبي خلف- واسمه محمد بن أحمد-، وهو ثقة من رجال مسلم. والحديث أخرجه الحاكم (1/327) ، والبيهقي (3/355) ، من طرق أخرى عن محمد بن عبيد... به. وقال: الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! (تنبيه) : قوله: رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يواكي؛ كذا وقع في بعض نسخ الكتاب. وفي بعضها: أتت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بواكي. وهذه هي الرواية المعتمدة في السنن . وكذلك هو في نسخة البيهقي منها، كما صرح به عقب إخراجه الحديث، وقال. وكان الخطابي رحمه الله يستغربه: رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يواكي. ثم فسره فقال: قوله: يواكي: معاه التحامل إذا رفعهما ومدَّهما في الدعاء .
قلت: وتمام كلام الخطابي في المعالم : ومن هذا: التوكؤ على العصا ، وهو التحامل عليها . وحكاه المننذري في مختصره (2/37) ، وقال: قال بعضهم: والصحيح ما ذكره الخطابي. هذا آخر كلامه. وللرواية المشهورة وجه .
قلت: وهما جمع باكية؛ أي: جاءت عند النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نفوسٌ باكيةٌ ، أو نساء باكيات.
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
جابربن عبداللہ ؓ کا بیان ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ لوگ (بارش نہ برسنے کی وجہ سے) روتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی «اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ» ”اے اللہ! ہمیں بارش عنایت فرما، ازحد مفید، مددگار، بہترین انجام والی، جو شادابی لائے، نفع آور ہو، کسی ضرر کا باعث نہ بنے اور جلدی آئے، دیر نہ کرے۔“ سیدنا جابر ؓ نے بیان کیا کہ (اس دعا کے بعد فوراً) ان پر بادل چھا گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ انسان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی حاجات میں ہمیشہ اللہ ہی سے دعا کرنی چاہیے۔ اور گڑگڑا کربہ تکرار دعا کرنی چاہیے۔ 2۔ اپنے صالحین سے بھی دعا کرانی چاہیے۔۔ جو کہ ایک شرعی اور مسنون وسیلہ ہے۔ 3۔ اس حدیث کے ایک نسخے میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ کہ (أتيت النبي صلی الله عليه وسلم يواكي) اس کا ترجمہ یوں ہے کہ میں آپ کی خدمت میں آیا اور اپ اپنے ہاتھوں پرٹیک لگائے ہوئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس (بارش نہ ہونے کی شکایت لے کر) روتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے یوں دعا کی: «اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ» یعنی ”اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، ایسی بارش سے جو ہماری فریاد رسی کرنے والی ہو، اچھے انجام والی ہو، سبزہ اگانے والی ہو، نفع بخش ہو، مضرت رساں نہ ہو، جلد آنے والی ہو، تاخیر سے نہ آنے والی ہو۔“ جابر ؓ کہتے ہیں: یہ کہتے ہی ان پر بادل چھا گیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): The people came to the Prophet (ﷺ) weeping (due to drought). He said (making supplication): O Allah! Give us rain which will replenish us, abundant, fertilising and profitable, not injurious, granting it now without delay. He (the narrator) said: Thereupon the sky became overcast.