Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: Whoever Said That It Should Be Prayed With Four Rak'ahs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1179.
سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو نماز پڑھائی اور لمبا قیام کیا حتیٰ کہ لوگ گرنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا۔ پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور لمبی دیر تک کھڑے رہے۔ پھر (دوسرا) رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور لمبی دیر کھڑے رہے پھر سجدہ کیا اور دو سجدے کیے پھر قیام کیا جیسے کہ پہلے کیا تھا۔ سو آپ ﷺ نے چار رکوع اور چار سجدے کیے اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا مؤمَّل بن هشام: ثنا إسماعيل عن هشام: ثنا أبو الزبير عن جابر.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال البخاري، ولولا أن أبا الزبير مدلس لقلت: إنه إسناد صحيح، وهو على شرط مسلم كما يأتي. لكن الحديث صحيح بالطريق الأولى. والحديث أخرجه مسلم (3/30- 31) ، وأبو عوانة (2/372- 373) ، والنسائي (1/217) ، والطيالسي (48/1/7171) ، وعنه البيهقي (3/324) ، وأحمد (3/374 و 382) من طرق أخرى عن هشام الدَّسْتُوائي... به.
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو نماز پڑھائی اور لمبا قیام کیا حتیٰ کہ لوگ گرنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا۔ پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور لمبی دیر تک کھڑے رہے۔ پھر (دوسرا) رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور لمبی دیر کھڑے رہے پھر سجدہ کیا اور دو سجدے کیے پھر قیام کیا جیسے کہ پہلے کیا تھا۔ سو آپ ﷺ نے چار رکوع اور چار سجدے کیے اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز کسوف پڑھائی، (اس میں) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا (رکوع) کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا (قیام) کیا، پھر دو سجدے کئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا، اس طرح (دو رکعت میں) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے دلیل ہے جو ہر رکعت میں دو رکوع کے قائل ہیں، اور یہ دوسری روایت ہی باب سے مطابقت رکھتی ہے لیکن چونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے دونوں شاگرد عطاء اور ابوالزبیر نے اختلاف کیا ہے، عطا نے جابر رضی اللہ عنہ سے چھ رکوع کی روایت کی ہے اور ابوالزبیر نے ان سے چار رکوع کی روایت کی ہے، اسی لئے مصنف نے صرف دوسری روایت کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے عطا کی روایت بھی ذکر کر دی اگرچہ وہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ امام بخاری اور دوسرے ائمہ نے کہا ہے کہ کسوف (سورج گرہن) کی ان احادیث کو بیان جواز پر محمول کرنا درست نہیں جب تک کہ نماز استسقا میں تعدد واقعہ نہ ہو اور اس میں تعدد واقعہ نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ ان تمام روایات کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج گرہن کی اس نماز سے ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کے دن پڑھی تھی، ایسی صورت میں دو رکوع والی روایتوں کی ترجیح واجب ہے کیونکہ وہ زیادہ صحیح اور مشہور ہیں، اس کے برخلاف ائمہ فقہ و حدیث کی ایک جماعت نے تعدد واقعہ قرار دے کر ان روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسوف کی مدت لمبی ہو جائے تو رکوع کی تعداد تین سے لے کر پانچ تک بڑھا دینا جائز ہے، امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اسے قوی کہا ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): There was an eclipse of the sun in the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) on a hot day. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) led his Companions in prayer and prolonged the standing until the people began to fall down. He then bowed and prolonged it; then he raised his head and prolonged (the stay); then he bowed and prolonged it; then he raised his head and prolonged (the stay); then he made two prostrations and then stood up; then he did in the same manner. He thus performed four bowings and four prostrations. Then the narrator narrated the rest of the tradition.