Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: Whoever Said That It Should Be Prayed With Four Rak'ahs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1186.
سیدنا قبیصہ ہلالی ؓ سے مروی ہے کہسورج کو گہن لگا۔ اور موسیٰ بن اسماعیل کی (مذکورہ بالا) حدیث کی مانند بیان کیا۔ اس میں بیان کیا حتیٰ کہ ستارے ظاہر ہو گئے۔
تشریح:
گزشتہ روایات میں رکوع کی تعداد دو دو تین تین چار چار بتائی گئی ہے۔ جب کہ بیشتر میں یہ صراحت بھی ہےکہ یہ اس دن پیش آیا تھا۔ جس دن نبی کریم ﷺ کے صاحب زاے حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی۔ اس لئے تعارض ظاہر ہے اور تطبیق کا کوئی امکان نہیں۔ اس لئے محققین کے رائے یہ ہے کہ ترجیح کی روایت لی جائے گی اور ترجیح دو رکوع والی روایت کو ہے۔ کیونکہ یہ صحیحین اور بالخصوص صحیح بخاری میں مرو ی ہے۔ جب کہ اس سے زیادہ رکوع والی روایات صحیح مسلم اور کتب سنن کی ہیں۔ لہذا یہ روایات صحیحین کی روایات کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (مرعاة المفاتیح۔ صلوة الکسوف، حدیث: 496)
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ هلال بن عامر: لا يعرف- قاله الذهبي-. وعباد بن منصور: ضعيف. وخالفه عبد الوارث فقال: عن أيوب عن أبي قلابة عن رجل عن النعمان بن بشير- كما مضى في الذي قبله-. وقوله: حتى بدت النجوم.. منكر أيضاً) . إسناده: حدثنا أحمد بن إبراهيم: ثنا ريحان بن سعيد: ثنا عباد بن منصور.
قلت: وهذا إسناد ضعيف. هلال بن عامر قال الذهبي في الميزان : لا يعرف . وقال الحافظ: مقبول، وقيل: له رؤية . وعباد بن منصور ضعيف من قبل حفظه، وقد خولف في إسناده- كما تقدم بيانه في الذي قبله-. وقوله في متنه: حتى بدت النجوم.. منكر؛ لتفرده دون كل الثقات الذين رووا هذه القصة عن عشرين صحابياً، وقد خرجت أحاديثهم في الكتاب المفرد في هذه الصلاة. ثم لينظر هل معناه صحيح في نفسه؟ أعني: هل تبدو النجوم إذا كان كسوف الشمس كلياً؛ فإني لا أعرف ذلك؟ والحديث أخرجه البيهقي (3/334) من طريق المصنف.
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
سیدنا قبیصہ ہلالی ؓ سے مروی ہے کہسورج کو گہن لگا۔ اور موسیٰ بن اسماعیل کی (مذکورہ بالا) حدیث کی مانند بیان کیا۔ اس میں بیان کیا حتیٰ کہ ستارے ظاہر ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
گزشتہ روایات میں رکوع کی تعداد دو دو تین تین چار چار بتائی گئی ہے۔ جب کہ بیشتر میں یہ صراحت بھی ہےکہ یہ اس دن پیش آیا تھا۔ جس دن نبی کریم ﷺ کے صاحب زاے حضرت ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تھی۔ اس لئے تعارض ظاہر ہے اور تطبیق کا کوئی امکان نہیں۔ اس لئے محققین کے رائے یہ ہے کہ ترجیح کی روایت لی جائے گی اور ترجیح دو رکوع والی روایت کو ہے۔ کیونکہ یہ صحیحین اور بالخصوص صحیح بخاری میں مرو ی ہے۔ جب کہ اس سے زیادہ رکوع والی روایات صحیح مسلم اور کتب سنن کی ہیں۔ لہذا یہ روایات صحیحین کی روایات کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (مرعاة المفاتیح۔ صلوة الکسوف، حدیث: 496)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہلال بن عامر سے روایت ہے کہ قبیصہ ہلالی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی، اس میں ہے: یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qabisah al Hilali: The solar eclipse took place... The narrator then narrated the tradition like that of Musa. The narrator again said: Until the stars appear (in the heaven).