Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: The Recitation In The Eclipse Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1188.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لمبی قراءت کی اور اونچی آواز سے۔ یعنی نماز کسوف میں۔
تشریح:
؎ مذکوہ بالا دونوں احادیث کے درمیان جمع وتطبیق یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ فاصلے پرتھیں۔ اس لئے نبی کریم ﷺ کی قراءت صاف سن نہ سکی تھیں۔ آواز سنی اس لئے جانا کہ قراءت جہرا ً ہورہی ہے۔ لیکن یہ نہ جان سکیں کہ قراءت کیا ہورہی ہے۔ ا س لئے اس کا اندازہ لگایا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه... بإسناد المصنف. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! وأخرجه الشيخان في صحيحيهما نحوه. وقال الترمذي: حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا العباس بن الوليد بن مَزْيَد: أخبرني أبي: ثنا الأوزاعي: أخبرني الزهري: أخبرني عروه بن الزبير عن عائشة.
قلت: وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير العباس بن الوليد وأبيه، وهما ثقتان. والحديث أخرجه أبو عوانة (2/378) ... بإسناد المصنف. وأخرجه البيهقي (3/336) من طريق الحاكم وهذا في المستدرك (1/334) من طريق أخرى عن العباس بن الوليد... وقال: صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه هكذا ! ووافقه الذهبي! وقد تابعه عبد الرحمن بن نمر سمع ابن شهاب... نحوه. أخرجه البخاري (2/35) ، و مسلم (3/29) ، والنسائي (1/223) ، والبيهقي. وأخرجه الترمذي (2/452) ، والطحاوي (1/197) ، وأحمد (6/65) من طريقين آخرين عن الزهري... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وله طريق ثالثة عنه: عند أحمد (6/76) .
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لمبی قراءت کی اور اونچی آواز سے۔ یعنی نماز کسوف میں۔
حدیث حاشیہ:
؎ مذکوہ بالا دونوں احادیث کے درمیان جمع وتطبیق یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ فاصلے پرتھیں۔ اس لئے نبی کریم ﷺ کی قراءت صاف سن نہ سکی تھیں۔ آواز سنی اس لئے جانا کہ قراءت جہرا ً ہورہی ہے۔ لیکن یہ نہ جان سکیں کہ قراءت کیا ہورہی ہے۔ ا س لئے اس کا اندازہ لگایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لمبی قراءت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کسوف (گرہن) کی نماز میں قراءت جہری ہونی چاہئے، یہی جمہور محدثین کا مذہب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated A'ishah (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) recited from the Qur'an in a loud voice in the prayer at an eclipse.