Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: The Recitation In The Eclipse Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1189.
سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا کہ سورج گہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ کے قریب لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا۔ اور باقی حدیث بیان کی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي هريرة- كذا عند القاضي! والصواب عن ابن عباس- قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (1/194- 195) ... بهذا السند، وعلى الصواب بتمامه. وكذلك أخرجه البيهقي (3/335) من طريق المصنف. والبخاري (2/33) ... بإسناده. وأبو عوانة (2/379) من طريق أخرى عن القعنبي. ومسلم (3/34) ، والنسائي (1/221) ، والدارمي (1/360) ، والطحاوي (1/193) ، وأحمد (1/298- 358) ، وأبو عوانة أيضا من طرق أخرى عن مالك... به. (تنبيه) : اختلفت نسخ الكتاب في صحابي هذا الحديث، فوقع في بعضها: عن أبي هريرة! وفي بعضها: عن ابن عباس. وكذلك في مختصر المنذري ، وكذا في نسختنا، وفيها التنبيه على خطأ الرواية الأولى، وأنها كذلك عند القاضي كما رأيت. ولم أعرف القاضي! والظاهر أنه أحد رواة الكتاب عن اللؤلؤي صاحب المؤلف! وأظن أن التنبيه المذكور كتبه بعض الحفاظ على هامش نسخة الكتاب، فظنها الناسخ أو الطابع من الأصل، فضمَّها إليه! ولا شك بصواب ما ذكره. ويؤيِّد ذلك- علاوة على ما ذكرنا- أن البيهقي رواه عن المصنف على الصواب. وكذلك البخاري وأبو عوانة روياه عن القعنبي شيخ المؤلف. وكذلك وقع في سائر الطرق عن مالك. ولذلك قال الحافظ في الفتح : ووقع في رواية اللؤلؤي في سنن أبي داود : عن أبي هريرة بدل: ابن عباس؛ وهو غلط . ورا جع بذل المجهود (2/226) .
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا کہ سورج گہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی، لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ کے قریب لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا۔ اور باقی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے گرہن کی نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی، آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ کی قراءت کے برابر طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): An eclipse of the sun took place. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed along with the people. He stood up for a long time nearly equal to the recitation of Surah al Baqarah. H then bowed. The narrator then transmitted the rest of the tradition.