باب: ان حضرات کی دلیل جو کہتے ہیں کہ ( کسوف میں معروف نماز کی طرح ) دو رکعتیں پڑھے
)
Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: Whoever Said That Only Two Ruku' Should Be Performed (In Eclipse Prayer))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1193.
سیدنا نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں سورج کو گہن لگا تو آپ ﷺ دو دو رکعتیں پڑھنے لگے اور سورج کے متعلق بھی دریافت فرماتے جاتے تھے حتیٰ کہ وہ صاف ہو گیا۔
تشریح:
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اس نماز میں رکعتیں تو دو ہی ہیں۔ لیکن ہر رکعت میں کم از کم دو رکوع اور خوب لمبی قراءت ہونی چاہیے۔ (دیکھئے گزشتہ احادیث کسوف)
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهذا إسناد منقطع؛ قال البيهقي: أبو قلابة لم يسمعه من النعمان ، بينهما رجل. وذكر السؤال عن الشمس فيه.. منكر. وذكر بعضهم التسليم قبل السؤال !) . إسناده: حدثنا أحمد بن أبي شعيب الحراني: حدثني الحارث بن عمير البصري عن أيوب السختياني عن أبي قِلابة.
قلت: وهذا إسناد منقطع بين أبي قلابة والنعمان- كما سبق بيانه في الذي قبله-، وذكر السؤال فيه منكر؛ لم يأت إلا من طريق أبي قلابة، وزاد بعضهم فيه التسليم قبل السؤال، وهو منكر أيضاً فقال: فجعل يصلي ركعتين ويسلم ويسأل! وهذا منكر أيضاً؛ لعدم وروده في شيء من أحاديث الكسوف على كثرتها- كما بينته في كتابي الخاص في صلاة الكسوف -. والحارث بن عمير البصري فيه كلام؛ لكن الراجح أنه ثقة- كما حققه العلامة عبد الرحمن اليماني في كتابه القيم التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل (1/220/68) -؛ على أنه قد خولف في إسناده- كما تقدم بيانه في الحديث الذي قبله-.
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
سیدنا نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں سورج کو گہن لگا تو آپ ﷺ دو دو رکعتیں پڑھنے لگے اور سورج کے متعلق بھی دریافت فرماتے جاتے تھے حتیٰ کہ وہ صاف ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اس نماز میں رکعتیں تو دو ہی ہیں۔ لیکن ہر رکعت میں کم از کم دو رکوع اور خوب لمبی قراءت ہونی چاہیے۔ (دیکھئے گزشتہ احادیث کسوف)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پوچھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man ibn Bashir: There was an eclipse of the sun in the time of the Prophet (ﷺ) . He began to pray a series of pairs of rak'ahs enquiring about the sun (at the end of them) till it became clear.