باب: جب کوئی واقعہ یا حادثہ پیش آئے تو سجدہ کرنا چاہیے
)
Abu-Daud:
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa')
(Chapter: Prostrating At Times Of Calamities)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1197.
جناب عکرمہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس ؓ کو خبر دی گئی کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج میں سے فلاں فوت ہو گئی ہیں تو آپ ﷺ سجدے میں گر گئے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ ﷺ اس موقع پر سجدہ کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ دیکھو تو سجدہ کیا کرو۔“ اور بھلا زوجہ نبی کریم ﷺ کی وفات سے بڑھ کر بھی کوئی حادثہ ہو گا؟
تشریح:
کسی گھرانے یا معاشرے کا اپنے نیک اور صالح افراد سے محروم ہوجانا بہت بڑی آفت ہے۔ مگر کم ہی لوگوں کو اس کا حساس ہوتا ہے۔ بہر حال واجب ہے کہ ہر حال میں اللہ عزوجل کی طرف رجوع کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وقال الترمذي: حديث حسن غريب ، حسنه السيوطي أيضا) . إسناده: حدثنا محمد بن عثمان بن أبي صفوان الثقفي: ثنا يحيى بن كثير: ثنا سَلْمُ بن جعفر عن الحكم بن آبَانَ عن عكرمة
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات. وفي الحكم بن أبان كلام لا يمنع من تحسين إسناده. وفي التقريب : صدوق له أوهام . وقريب منه سلم بن جعفر؛ بل هو خير منه، فقد وثقه جماعة، ولم يجرحه أحد سوى الأزدي، فقال: متروك ! فلا يسمع هذا منه؛ لأنه نفسه متكلم فيه، فكيف يقبل منه الجرح بدون بينة؟ أ ولا سيما مع مخالفته للأئمة الذين أشرنا إليهم، ومنهم الترمذي الذي حسن حديثه هذا كما يأتي، وتبعه السيوطي في الجامع الصغير . وأما قول المناوي في شرحه - بعد أن ذكر قول الترمذي في تحسينه-: واغتر به المؤلف فرمز لحسنه؛ غفولاً عن تعقب الذهبي له في المهذب بأن إبراهيم واه، وعن قول جمع: سلم بن جعفر لا يحتج به ! فهو مردود؛ لأن سلماً لم يتكلم فيه غير الأزدي فقط؛ على ما فيه مما بينا. وأما إبراهيم- وهو ابن الحكم بن أبان- فهو واه حقاً، ولكن ذلك لا يضر الحديث؛ لأنه متابع لسلم بن جعفر كما يأتي. ثم هو ليس في رواية المصنف، ولا في رواية الترمذي كما سترى؛ خلافاً لما صرح به المناوي غفر الله لنا وله! والحديث أخرجه البيهقي (3/343) من طريق المصنف. وأخرجه الترمذي (4/366- تحفة) فقال: حدثنا العباس العنبري: نا يحيى ابن كثير العنبري: أبو غسان: نا سلن
جعفر:- وكان ثقة- عن الحكم بن أبان... به. وقال: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه . ثم أخرجه البيهقي من طريق إبراهيم بن الحكم بن أبان: حدثني أبي... به. تفربع أبواب صلاة السفر
( استسقاء)کی معنی ہیں ’’پانی طلب کرنا‘‘ یعنی خشک سالی ہو اور اس وقت بارش نہ ہو رہی ہو‘جب فصلوں کو بارش کی ضرورت ہو‘ تو ایسے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے دعاؤں کے علاوہ با جماعت دو رکعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہے ‘جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک مسنون عمل ہے اس کا طریق کار کچھ اس طرح سے ہے :
٭اس نماز کو کھلے میدان میں ادا کیا جائے۔
٭اس کے لیے اذان و اقامت کی ضرورت نہیں۔
٭صرف دل میں نیت کرے کہ میں نماز استسقاء ادا کر رہا ہوں۔
٭بلند آواز سے قراءت کی جائے۔
٭لوگ عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے نماز کے لیے جائیں۔
٭انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار ‘ترک معاصی اور رجوع الی اللہ کا عہد کیا جائے۔
٭کھلے میدان میں منبر پر خطبے اور دعا کا اہتمام کیا جائے ‘تاہم منبر کے بغیر بھی جائز ہے۔
٭سورج نکلنے کے بعد یہ نماز پڑھی جائے‘ بہتر یہی ہے رسول اللہ نے اسے سورج نکلتے ہی پڑھا ہے۔
٭جمہور علماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے‘ تا ہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔
٭نماز گاہ میں امام قبلہ رخ کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ اتنے بلند کرے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے ۔
٭دعا کے لیے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوں ‘تا ہم ہاتھ سر سے اوپر نہ ہوں۔
٭دعا منبر پر ہی قبلہ رخ ہو کر کی جائے ۔
٭ لوگ چادریں ساتھ لے کر جائیں ‘دعا کے بعد اپنی اپنی چادر کو الٹا دیا جائے یعنی چادر کا اندر کا حصہ باہر کر دیا جائے اور دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر چال لیا جائے ۔ یہ سارے کام امام کے ساتھ مقتدی بھی کریں۔
٭ ہاتھوں کی پشتوں کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا ‘یہ نیک فالی کے طور پر ہے ‘یعنی یا اللہ !جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے ‘تو بھی موجودہ صورت کو اسی طرح بدل دے ۔بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوش حالی میں بدل دے۔
جناب عکرمہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس ؓ کو خبر دی گئی کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج میں سے فلاں فوت ہو گئی ہیں تو آپ ﷺ سجدے میں گر گئے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ ﷺ اس موقع پر سجدہ کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ دیکھو تو سجدہ کیا کرو۔“ اور بھلا زوجہ نبی کریم ﷺ کی وفات سے بڑھ کر بھی کوئی حادثہ ہو گا؟
حدیث حاشیہ:
کسی گھرانے یا معاشرے کا اپنے نیک اور صالح افراد سے محروم ہوجانا بہت بڑی آفت ہے۔ مگر کم ہی لوگوں کو اس کا حساس ہوتا ہے۔ بہر حال واجب ہے کہ ہر حال میں اللہ عزوجل کی طرف رجوع کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ نبی اکرم ﷺ کی فلاں بیوی کا انتقال ہو گیا ہے، تو وہ یہ سن کر سجدے میں گر پڑے، ان سے کہا گیا: کیا اس وقت آپ سجدہ کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی بڑا حادثہ) دیکھو تو سجدہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی موت سے بڑھ کر کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): 'Ikrimah (RA) said: Ibn 'Abbas (RA) was informed that so-and-so, a certain wife of the Prophet (ﷺ) , had died. He fell down prostrating himself. He was questioned: Why do you prostrate yourself this moment? He said: The Apostle of Allah (ﷺ) said: When you see a portent (an accident), prostrate yourselves. And which portent (accident) can be greater than the death of a wife of the Prophet (ﷺ) .