Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: Shortening The Recitation During Travel)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1221.
سیدنا براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، آپ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی تو آپ ﷺ نے اس کی ایک رکعت میں سورۃ «والتين والزيتون» تلاوت فرمائی۔
تشریح:
امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کے احوال کا خاص خیال رکھے ایسے ہی سفر میں نماز کی قراءت کو مختصر رکھنا مستحب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة عن عَديَ بن ثابت عن البراء.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (1/127) ، ومسلم (2/41) ، وأبو عوانة (2/155) ، والنسائي (1/155) ، والبيهقي (2/393) ، وأحمد (4/302) من طرق عن شعبة... به. ثم أخرجوه هؤلاء جميعاً، ومالك (1/101) ، والترمذي (2/115) ، وأحمد (4/291 و 298 و 303 و 304) من طرق أخرى عن عدي بن ثابت... به؛ دون ذكر السفر. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
سیدنا براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، آپ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی تو آپ ﷺ نے اس کی ایک رکعت میں سورۃ «والتين والزيتون» تلاوت فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کے احوال کا خاص خیال رکھے ایسے ہی سفر میں نماز کی قراءت کو مختصر رکھنا مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں «والتين والزيتون» پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' (RA): We went out on a journey along with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He led us in the night prayer and he recited in one of the rak'ahs: "By the fig and the olive".