Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: When Should The Traveler Stop Shortening The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1233.
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ (اس سفر میں) دو دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے، حتی کہ ہم مدینہ لوٹ آئے۔ ہم نے پوچھا: کیا آپ لوگ وہاں کچھ ٹھہرے بھی تھے؟ انہوں نے کہا: دس دن ٹھہرے تھے۔
تشریح:
یہ حجۃ الوداع کا قصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اقامت مکہ اور اس کے مضافات میں عمل حج کی تکمیل کے سلسلے میں کل دس دن اور صرف مکہ ہی میں چار دن ہے۔ اس سے امام شافعی کا استدلال وفتویٰ یہ ہے کہ جو شخص کہیں چار دن کی اقامت کا عزم رکھتا ہو۔ تو وہ قصر کرے۔ اور اگر اس سے زیادہ کا ارادہ ہو تو مکمل نماز پڑھے۔ اور تین دن کے قائلین کی بنیاد بھی یہی حدیث ہے۔ وہ اس میں سے خروج اور دخول کا دن نکال دیتے ہیں۔ جس کے بعد اقامت کے دن تین ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال تین دن اور چاردن دونوں ہی مسلک صحیح ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل ومسلم بن إبراهيم- المعنى- قالا: ثنا وُهَيْب: حدثني يحيى بن أبي إسحاق عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا سند صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (2/38) ، ومسلم (2/145) ، وأبو عوانة (2/346- 347) ، والنسائي (1/211 و 212) ، والترمذي (2/433) ، والدارمي (1/355) ، وابن ماجه (1/333) ، وابن الجارود (224) ، والبيهقي (3/136) ، وأحمد (3/187 و 195) ، من طرق أخرى عن يحيى... به. وصححه الترمذي كما ذكرنا في الأعلى 1117- عن عمر بن علي بن أبي طالب: أن علياً رضي الله عنه كان إذا سافر سار بعدما تغرب الشمس... (هذا الحديث علق عليه الشيخ رحمه الله: ينقل إلى الضعيف ؛ إلا إذا وجد له متاخ أو شاهد ؛ فانظره هناك. برقم (227/م)
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ (اس سفر میں) دو دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے، حتی کہ ہم مدینہ لوٹ آئے۔ ہم نے پوچھا: کیا آپ لوگ وہاں کچھ ٹھہرے بھی تھے؟ انہوں نے کہا: دس دن ٹھہرے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع کا قصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اقامت مکہ اور اس کے مضافات میں عمل حج کی تکمیل کے سلسلے میں کل دس دن اور صرف مکہ ہی میں چار دن ہے۔ اس سے امام شافعی کا استدلال وفتویٰ یہ ہے کہ جو شخص کہیں چار دن کی اقامت کا عزم رکھتا ہو۔ تو وہ قصر کرے۔ اور اگر اس سے زیادہ کا ارادہ ہو تو مکمل نماز پڑھے۔ اور تین دن کے قائلین کی بنیاد بھی یہی حدیث ہے۔ وہ اس میں سے خروج اور دخول کا دن نکال دیتے ہیں۔ جس کے بعد اقامت کے دن تین ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال تین دن اور چاردن دونوں ہی مسلک صحیح ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ (اس سفر میں) دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے تو ہم لوگوں نے پوچھا: کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ ٹھہرے؟ انہوں نے جواب دیا: مکہ میں ہمارا قیام دس دن رہا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ حدیث حجۃ الوداع کے سفر کے بارے میں ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث فتح مکہ کے بارے میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas b. Malik (RA): We went out from Madinah to Makkah with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and he prayed two rak'ahs (at each time of prayer) till we returned to Medina. We (the people) said: Did you stay there for some time? He replied: We stayed there ten days.