باب: ( نماز خوف کی ایک اور کیفیت ) ایک صف امام کے ساتھ ہو اور دوسری دشمن کے سامنے
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: Whoever Said That One Row Should Stand With The Imam, And Another Ro Face The Enemy)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1237.
سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو نماز خوف پڑھائی۔ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے ان لوگوں کی دو صفیں بنائیں۔ تو جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے تھے آپ ﷺ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہو گئے اور مسلسل کھڑے رہے، حتیٰ کہ انہوں (پہلی صف والوں) نے اپنی دوسری رکعت پڑھ لی۔ پھر دوسرے گروہ والے آگے آ گئے اور جو آگے تھے وہ پیچھے چلے گئے۔ پس نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر بیٹھے رہے، حتیٰ کہ انہوں (دوسرے گروہ والوں) نے اپنی دوسری رکعت پڑھ لی، پھر سلام پھیرا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم في صحيحه بإسناد المصنف، وأبو عوانة من طريقه، وأخرجه البخاري وقال الترمذي: حسن صحيح . وسهل بن أبي حثمة صحابي صغير لم يدرك هذه القصة، فهو مرسل صحابي، ومراسيل الصحابة حجة) . إسناده: حدئنا عبيد الله بن معاذ: ثنا أبي: ثنا شعبة عن عبد الرحمن ابن القاسم عن أبيه عن صالح بن خَوَّات عن سهل بن أبي حثمة. قال أبو داود: أما رواية يحيى بن سعيد عن القاسم نحو رواية يزيد بن رومان؛ إلا أنه خالفه في السلام. ورواية عبيد الله نحو رواية يحيى بن سعيد قال: ويثبت قائماً .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه أبو عوانة (2/364) ، والبيهقي (3/253) من طريق المصنف. وأخرجه مسلم (2/214) ... بإسناده. وأخرجه البخاري (5/95) ، والنسائي (1/228) ، والترمذي (2/456) ، والدارمي (1/358) ، وابن ماجه (1/380) ، وابن الجارود (237) ، وأحمد (3/448) من طرق أخرى عن شعبة... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .
قلت: وسهل بن أبي حئمة صحابي صغير، مات النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهو ابن ثمان سنين. وعلى هذا؛ فروايته لقصة صلاة الخوف هذه مرسلة؛ لأنها كانت يوم ذات الرقاع، كما فما الرواية الآتية، وكانت بعد خيبر، كما قواه الحافظ في الفتح (7/340) ؛ أىِ: سنة سبع. وقول المصنف: أما رواية يحيى بن سعيد... ! لا مناسبة له هنا؛ لأن رواية يحيى بن لسعيد وغيره لم يسبق لها ذكر. وقد أعاده بعد حديث؛ وهو الصواب، ولعل ذكره هنا خطأ من بعض رواة الكتاب أو نساخه.
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو نماز خوف پڑھائی۔ آپ ﷺ نے اپنے پیچھے ان لوگوں کی دو صفیں بنائیں۔ تو جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے تھے آپ ﷺ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہو گئے اور مسلسل کھڑے رہے، حتیٰ کہ انہوں (پہلی صف والوں) نے اپنی دوسری رکعت پڑھ لی۔ پھر دوسرے گروہ والے آگے آ گئے اور جو آگے تھے وہ پیچھے چلے گئے۔ پس نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر بیٹھے رہے، حتیٰ کہ انہوں (دوسرے گروہ والوں) نے اپنی دوسری رکعت پڑھ لی، پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن ابی حثمہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ حالت خوف میں نماز ادا کی تو اپنے پیچھے دو صفیں بنائیں پھر جو آپ سے قریب تھے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو پہلی صف کے پیچھے تھے، ایک رکعت ادا کی، پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے، آپ کے پیچھے آ گئے، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر آپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی پھر آپ نے سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl b. Abi Hathmah: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed in time of danger and divided them (the people) behind him in two rows. He then led those who were near him in one rak'ah. Then he stood and remained standing till those who were in second row offered one rak'ah. Thereafter they came forward and those who were in front of them (in the first row) stepped backward. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) led them in one rak'ah of prayer. He sat down till those who were in the second row completed on rak'ah. He then uttered the salutation.