باب: ( ایک اور کیفیت ) سب اکھٹے تکبیر ( تحریمہ ) کہیں
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: Whoever Said That They Say The Takbr Together)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1241.
جناب عروہ بن زبیر، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی جانب نکلے۔ یہاں تک کہ جب ہم مقام نخل کے ذات الرقاع میں پہنچے تو بنو غطفان کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ اور مذکورہ روایت کے ہم معنی بیان کیا۔ اس کے الفاظ حیوہ کے الفاظ سے مختلف ہیں۔ اس میں کہا: جب آپ نے اپنے ساتھ والوں کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا اور کھڑے ہوئے تو یہ لوگ الٹے پاؤں چلتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کھڑے ہوئے۔ اور قبلے کی طرف پشت کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا محمد بن عمرو الرازي: ثنا سلمة: حدثني محمد بن إسحاق عن محمد بن جعفر بن الزبير ومحمد بن الأسود عن عروة بن الزبير.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم (لكن سلمة هذاث هو ابن الفضل الأبش، وليس من رجال مسلم؛ كما في السلسلة الصحيحة (2/279) . (الناشر) . كذا في الموارد ! وكأنه سقط من الناسخ أو الطابع قوله. (عن عروة بن الزبير) ؛ إلا أنه ما أخرج لابن إسحاق إلا متابعة. وابن الأسود: هو محمد بن عبد الرحمن بن نوفل بن الأسود أبو الأسود المدني، يتيم عروة. وليس للإسناد عِلًة؛ سوى عنعنة ابن إسحاق، وقد صرح بالتحديث في رواية يونس بن بكير عنه؛ كما سأذكره. والحديث أخرجه ابن حبان (585) عن ابن خزيمة، وهذا في صحيحه (1362) من طريق أحمد بن الأزهر: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد: حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: حدثني محمد لن كبد الرحمن بن نوفل- وكان يتيماً في حجر عروة بن الزبير قال (1) : سمعت أبا هريرة؛ ومروان بن الحكم يسأله عن صلاة الخوف... الحديث.
قلت: وهذا يؤيد التأويل الذي ذكرته في الحديث الذي قبله في قوله: عروة ابن الزبير يحدث عن مروان بن الحكم... أنه ليس من رواية عروة عن مروان؛ فتأمل! وأخرجه الطحاوي (1/186) ، والبيهقي (3/264) من طريق يونس بن بكير عن محمد بن إسحاق: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير... به. وهذا إسناد حسن. وقد رواه ابن جعفر بإسناد آخر، كما في الحديث الآتي بعده. وله في النسائي (1/230) ، وابن حبان (584) ، و المسند (2/522) طريق أخرى عن أبي هريرة... نحوه مختصراً. وسنده جيِّد-
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
جناب عروہ بن زبیر، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی جانب نکلے۔ یہاں تک کہ جب ہم مقام نخل کے ذات الرقاع میں پہنچے تو بنو غطفان کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ اور مذکورہ روایت کے ہم معنی بیان کیا۔ اس کے الفاظ حیوہ کے الفاظ سے مختلف ہیں۔ اس میں کہا: جب آپ نے اپنے ساتھ والوں کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا اور کھڑے ہوئے تو یہ لوگ الٹے پاؤں چلتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کھڑے ہوئے۔ اور قبلے کی طرف پشت کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب ہم ذات الرقاع میں تھے تو غطفان کے کچھ لوگ ملے، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی لیکن اس کے الفاظ حیوۃ کے الفاظ سے مختلف ہیں اس میں «حين ركع بمن معه وسجد» کے الفاظ ہیں، نیز اس میں ہے «فل قاموا مشوا القهقرى إلى مصاف أصحابهم» ”یعنی جب وہ اٹھے تو الٹے پاؤں پھرے اور اپنے ساتھیوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے۔“ اس میں انہوں نے «استدبار قبله» (قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے) کا ذکر نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah:We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) to Najd. When we reached Dhat ar-Riqa at Nakhl (or in a valley with palm trees) he met a group of the tribe of Ghatafan. The narrator then reported the tradition to the same effect, but his version is other than that of Haywah. He added to the words "when he bowed along with those who were with him and prostrated" the words "when they stood up, they retraced their footsteps to the rows of their companions". He did not mention the words "their back was towards the qiblah".