Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Voluntary Prayers
(Chapter: When Should The One Who Misses Them Make Them Up ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1267.
سیدنا قیس بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صبح کی نماز دو رکعتیں ہیں۔“ تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے پہلی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں، جو اب پڑھی ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) سنتیں رہ جائیں تو بعد میں پڑھنا افضل ہے۔ بالخصوص فجر کی سنتیں کہ نبی ﷺ انہیں سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (2) فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد ادا کرناجائز ہے۔ اور وہ حدیث جس میں ہے کہ ’’نماز فجر کےبعد نماز نہیں۔‘‘ اس سے مراد عام نوافل ہیں نہ کہ اس قسم کی نماز جوکسی سبب سے پڑھی جارہی ہو۔ (3) اگر یقین ہو کہ طلوع شمس کے انتظار میں یہ فوت نہیں ہو جائیں گی تو مؤخر کر لے۔ اسی طرح اس حدیث پر عمل ہو جائے گا کہ ’’نماز فجر کے بعد نماز نہیں’’ (4) رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو دیکھ یاسن کر خاموش رہنا اس کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال بالکل صحیح ہے کہ جو شخص فجر کی دو سنتیں فجر کی نماز سے پہلے نہیں پڑھ سکا وہ فرضوں کے بعد پڑھ سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وصححه ابن حبان والحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثا ابن نمير عن سعد بن سعيد: حدثني محمد بن إبراهيم عن قيس بن عمرو. حدثنا حامد بن يحيى البَلْخِي قال: قال سفيان: كان عطاء بن أبي رباح يحدث بهذا الحديث عن سعد بن سعيد. قال أبو داود: روى عبد ربه ويحيى ابنا سعيد هذا الحديث مرسلاً: أن جدهم زيداً (1 كذا في النسخ الموجودة اليوم ! وهو خطأ. والصواب. قيساً ؛ فإن جد ابني سعيد: قيس لا زيد ! انظر الإصابة لابن حجر.) صلى مع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أن سعداً هذا- وهو ابن سعيد بن قيس بن عمرو الأنصاري- فيه كلام لسوء حفظه. لكنه قد توبع كما يأتي. ثم إن الإسناد منقطع ببن محمد بن إبراهيم وقيس بن عمرو، كما قال الترمذي. لكنه قد جاء موصولاً من طريق أخرى كما يأتي. والحديث أخرجه البيهقي (2/483) من طريق المصنف. وأخرجه أبو بكر بن أبي شيبة- أخو عثمان- في المصنف (2/2/37) : نا ابن نمير... به. وعنه: أخرجه ابن ماجه (1/352) ، والحاكم (1/275) أيضا. وأخرجه الترمذي (2/284- 285) مز/طريق عبد العزيز بن محمد عن سعد ابن سعيد... به. وقال: لا نعرفه إلا من حديث سعد بن سعبد. وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء ابن أبي رباح من سعد بن سعيد هذا الحديث. وإنما يروى هذا الحديث مرسلأ. وسعد بن سعيد: هو أخو يحيى بن سعيد الأنصاري. وقيس: هو جد يحيى بن سعيد، ويقال: هو قيس بن عمرو، ويقال: هو قيس بن قهد. وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل؛ محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس . وأخرجه الإمام أحمد (5/447) : ثنا ابن نمير... به. وأخرجه الحميدي في مسنده (868) : ثنا سفيان قال: ثنا سعد بن سعيد ابن قيس الأنصاري... به. قال سفيان: وكان عطاء بن أبىِ رباح يروي هذا ا حديث عن سعد بن سعيد. وقد جاء موصولاً: أخرجه ابن حبان (624) ، والدارقطني (147) ، والحاكم (1/274- 275) من طرق عن اسد بن موسى: حدثنا الليث بن سعد: حدثنا يحيى بن سعيد عن أبيه عن جده قيس بن قهد: أنه صلى مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصبح؛ ولم يكن ركع الركعتين قبل الفجر. فلما سلم رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ قام فركع ركعتي الفجر ورسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ينظر إليه، فلم ينكر ذلك عليه. وقال الحاكم: قيس بن قهد الأنصاري صحابي، والطريق إليه صحيح على شرطهما ! وأقره الذهبي! وهو خطأ منهما؛ فإن أسد بن موسى- وإن كان ثقة على كلام فيه-؛ فليس على شرط الشيخين. وسعيد والد يحيى- وهو سعيد بن قيس بن عمرو الأنصاري- لم يخرج له الشيخان؛ بل ولا بقية الستة شيثاً؛ وقد أورده ابن أبي حاتم (2/1/55- 56) ، ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً. وأما ابن حبان؛ فذكره في الثقات (4/281) برواية يحيى ابنه عنه! وقرن معه ابن أبي حاتم: سعد بن سعيد! وفيه نظر؛ لأنه إنما روى عن محمد بن إبراهيم، كما في رواية ابن نمير عند المصنف وغيره. ومن الغرائب: أن (سعيد بن قيس) لم يترجموا له في تهذيب الكمال وفروعه! ولم يذكره الذهبي في الميزان و المغني ! وأسد بن موسى؛ قال في التقريب : صدوق يغرب 0
قلت: وقد خولف؛ فقال أحمد (5/447) : ثنا عبد الرزاق: أنا ابن جريج قال: وسمعت عبد الله بن سعيد أخا يحيى بن سعيد يحدث عن جده قال: خرج إلى الصبح... الحديث! هكذا وقع في السند ، وكذلك نقله الحافظ في الإصابة ! قال الحقق أحمد شاكر على الترمذي : ولم أجد ترجمة لعبد الله بن سعيد في كتب الرجال، ولم يذكره الحافظ في تعجيل المنفعة ، فالراجح عندي أن هذا خطأ من الناسخين، وأن صوابه: عبد ربه ابن سعيد، وتكون هي الرواية التي أشار إليها أبو داود .
قلت: وعبد ربه ثقة، ءلما في ابن أبي حاتم (3/1/41) . قال ابن معين: ثقة مأمون .
قلت: فمخالفة أسد بن موسى- مع ما فيه من الكلام- لمثل عبد ربه بن سعيد؛ مما لا يطمئن القلب له؛ لا سيما وقد تابعه أخوه يحيى بن سعيد كما ذكر المصنف- على إرساله-؛ فهو الأرجح. نعم؛ يتقوى الحديث بمرسل عطاء: عند ابن أبي شيبة قال: حدثنا هشيم قال: أخبر عبد الملك عن عطاء... به نحوه. وروي موصولاً من وجهين عنه؛ أحدهما: عن قيس بن سهل، والآخر: عن رجل من الأنصار. وله شاهد من حديث ثابت بن قيس بن شَمَّاس. وقد أخرج ذلك كله أبو الطيب في إعلام أهل العصر بأحكام ركعتي الفجر (ص 61-62) ؛ فمن شاء فليرجع إليه.
تطوع کا مطلب ہے ’ دل کی خوشی سے کوئی کام کرنا ۔ یعنی شریعت نے اس کے کرنے کو فرض و لازم نہیں کیا ہے لیکن اس کے کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں ۔ نیز انہیں فرائض میں کمی کوتاہی کے ازالے کا ذریعہ بتلایا ہے ۔ اس لحاظ سے تفلی عبادات کی بھی بڑی اہمیت او رقرب الہی کے حصول کا ایک بڑا سبب ہے ۔ اس باب میں نوافل ہی کی فضیلتوں کا بیان ہو گا ۔
سیدنا قیس بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صبح کی نماز دو رکعتیں ہیں۔“ تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے پہلی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں، جو اب پڑھی ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) سنتیں رہ جائیں تو بعد میں پڑھنا افضل ہے۔ بالخصوص فجر کی سنتیں کہ نبی ﷺ انہیں سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (2) فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد ادا کرناجائز ہے۔ اور وہ حدیث جس میں ہے کہ ’’نماز فجر کےبعد نماز نہیں۔‘‘ اس سے مراد عام نوافل ہیں نہ کہ اس قسم کی نماز جوکسی سبب سے پڑھی جارہی ہو۔ (3) اگر یقین ہو کہ طلوع شمس کے انتظار میں یہ فوت نہیں ہو جائیں گی تو مؤخر کر لے۔ اسی طرح اس حدیث پر عمل ہو جائے گا کہ ’’نماز فجر کے بعد نماز نہیں’’ (4) رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو دیکھ یاسن کر خاموش رہنا اس کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال بالکل صحیح ہے کہ جو شخص فجر کی دو سنتیں فجر کی نماز سے پہلے نہیں پڑھ سکا وہ فرضوں کے بعد پڑھ سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہو جانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”فجر دو ہی رکعت ہے۔“ اس شخص نے جواب دیا: میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qays ibn 'Amr (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) saw a person praying after the congregational prayer at dawn was over. The Apostle of Allah (ﷺ) said: There are two rak'ahs of the dawn prayer (i.e. the prescribed rak'ahs). The man replied: I did not pray the two rak'ahs before the dawn prayer. Hence I offered them now. The Apostle of Allah (ﷺ) kept silent.