باب: ان حضرات کی دلیل جو عصر کے بعد نماز کی اجازت دیتے ہیں بشرطیکہ سورج اونچا ہو
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Voluntary Prayers
(Chapter: Those Who Allowed These Two Rak'ahs To Be Prayed If The Sun Is Still High)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1278.
جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا: اے یسار! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا حاضر (موجود) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو۔“
تشریح:
فائدہ: شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد فرضوں سے پہلے صرف دو رکعت سنتیں ہی پڑھی جائیں۔ تاہم رات کے وتر دن چڑھے پڑھنا مشکل ہوں تو اس وقت میں ادائیگی جائز ہے۔ جیسے کہ سببی نماز کا مسئلہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا مسلم بن إبراهيم: ثنا وهيب: ثنا قُدَامة بن موسى عن أيوب ابن حصَيْنٍ عن أبي علقمة عن يسارمولى ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير يسار مولى ابن عمر، وهو ثقة. وإنما علته أيوب بن حصين- ويقال: محمد بن الحصين-؛ قال الذهبي: لا يعرف . وقال الدارقطني: مجهول . وكذا قال الحافظ في التقريب : مجهول وإنما أوردت حديثه هنا؛ لأن له شواهد يتقوى بها، خرجتها في إرواء الغليل (478) ؛ فلتطلب ثَمَ. والحديث أخرجه الدارقطني (161) من طريق المصنف. وأخرجه أحمد (2/153) : ثنا عفان: حدثنا وهيب... به. وأخرجه البيهقي (2/465) سن طرق أخرى عن وهيب... به. وأخرجه هو، والترمذي (2/278- 279) ، وابن نصر في قيام الليل (ص 79) ، والدارقطني من طريق عبد العزيز بن محمد الدراوردي عن قدامة بن موسى... به؛ إلا أنه قال: محمد بن الحصين. واختلف العلماء؛ فرجح بعضهم هذا، ورجح بعضهم الأول- أعني: أيوب بن الحصين. وأيّاً ما كان؛ فالرجل مجهول كما عرفت. وقال الترمذي: حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث قدامة بن سوسى .
قلت: فإنْ أراد الغرابة النسبية- أي: لا يعرفه في هذا الوجه إلا من حديث قدامة- فمسلَّم. وإن أراد الغرابة المطلقة فمردود؛ فقد ذكر له الزيلعي في نصب الراية (1/256) طريقين آخرين عن ابن عمر، ثم قال: وكل ذلك يعكر على الترمذي قوله: لا نعرفه إلا من حديث قدامة .
تطوع کا مطلب ہے ’ دل کی خوشی سے کوئی کام کرنا ۔ یعنی شریعت نے اس کے کرنے کو فرض و لازم نہیں کیا ہے لیکن اس کے کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں ۔ نیز انہیں فرائض میں کمی کوتاہی کے ازالے کا ذریعہ بتلایا ہے ۔ اس لحاظ سے تفلی عبادات کی بھی بڑی اہمیت او رقرب الہی کے حصول کا ایک بڑا سبب ہے ۔ اس باب میں نوافل ہی کی فضیلتوں کا بیان ہو گا ۔
جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا: اے یسار! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا حاضر (موجود) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد فرضوں سے پہلے صرف دو رکعت سنتیں ہی پڑھی جائیں۔ تاہم رات کے وتر دن چڑھے پڑھنا مشکل ہوں تو اس وقت میں ادائیگی جائز ہے۔ جیسے کہ سببی نماز کا مسئلہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کے غلام یسار کہتے ہیں کہ مجھے ابن عمر ؓ نے فجر طلوع ہونے کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: یسار! رسول اللہ ﷺ باہر نکل کر آئے، اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے موجود لوگ غیر حاضر لوگوں کو بتا دیں کہ فجر (طلوع) ہونے کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہ پڑھو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn'Umar (RA): Yasar, the client of Ibn 'Umar (RA), said: Ibn Umar (RA) saw me praying after the break of dawn. He said: O Yasar, the Apostle of Allah (ﷺ) came to us while we were offering this prayer. He (the Prophet) said: Those who are present should inform those who are absent: Do not offer any prayer after (the break of) dawn except two rak'ahs.