Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Voluntary Prayers
(Chapter: Raising One's Voice With The Recitation During The Night Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1332.
سیدنا ابوسعید (خدری) ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز سے قراءت کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”خبردار! تم بلاشبہ سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو مگر کوئی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قراءت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے۔“ یا فرمایا: ”نماز میں (اپنی آواز بلند نہ کرے)۔“
تشریح:
فائدہ: نمازی اور غیر نمازی کو اپنےاردگرد اور ماحول کا خیال رکھتے ہوئے قراءت قرآن میں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کا قطعاً جواز نہیں کہ کوئی شخص دوسرے کے لیے عبادت میں اذیت کاباعث بنے۔ اس سے ضمناً یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ مساجد میں کسی معقول وجہ کے بغیر لاؤڈ سپیکر کا استعمال مناسب نہیں۔ ایسے ہی گھروں میں ریڈیوں اور ٹیپ کی آواز سے ہمسایوں کو اذیت دینا بھی جائز نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي، وصححه ابن خزيمة) إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا كبد الرزاق: أخبرنا معمر عن إسماعيل ابن أمية عن أبي سلمة عن أبي سعيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه أحمد (3/94) : ثنا عبد الرزاق... به. وأخرجه النسائي في الكبرى (فضائل القرآن) ، وابن خزيمة في صحيحه (1/126/2) ، و الحاكم (1/310- 311) ، وعنه البيهقي (3/11) . وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي.
قلت: وللحديث شاهد من حديث البَيَاضِيِّ: عند مالك (1/80/29) ، وعنه أحمد (4/344) ، وكذا النسائي. وعن ابن عمر: عند أحمد (2/36 و 67 و 169) ، وصححه ابن خزيمة (1/227/1) . والطبراني عن أبي هريرة وعائشة؛ كما في الفتح الكبير .
تطوع کا مطلب ہے ’ دل کی خوشی سے کوئی کام کرنا ۔ یعنی شریعت نے اس کے کرنے کو فرض و لازم نہیں کیا ہے لیکن اس کے کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں ۔ نیز انہیں فرائض میں کمی کوتاہی کے ازالے کا ذریعہ بتلایا ہے ۔ اس لحاظ سے تفلی عبادات کی بھی بڑی اہمیت او رقرب الہی کے حصول کا ایک بڑا سبب ہے ۔ اس باب میں نوافل ہی کی فضیلتوں کا بیان ہو گا ۔
سیدنا ابوسعید (خدری) ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز سے قراءت کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”خبردار! تم بلاشبہ سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو مگر کوئی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قراءت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے۔“ یا فرمایا: ”نماز میں (اپنی آواز بلند نہ کرے)۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: نمازی اور غیر نمازی کو اپنےاردگرد اور ماحول کا خیال رکھتے ہوئے قراءت قرآن میں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کا قطعاً جواز نہیں کہ کوئی شخص دوسرے کے لیے عبادت میں اذیت کاباعث بنے۔ اس سے ضمناً یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ مساجد میں کسی معقول وجہ کے بغیر لاؤڈ سپیکر کا استعمال مناسب نہیں۔ ایسے ہی گھروں میں ریڈیوں اور ٹیپ کی آواز سے ہمسایوں کو اذیت دینا بھی جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا، آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے قراءت کرتے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”لوگو! سنو، تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور نہ قراءت میں (یا کہا نماز) میں اپنی آواز کو دوسرے کی آواز سے بلند کرے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) retired to the mosque. He heard them (the people) reciting the Qur'an in a loud voice. He removed the curtain and said: Lo! Every one of you is calling his Lord quietly. One should not trouble the other and one should not raise the voice in recitation or in prayer over the voice of the other.