کتاب: قرات قرآن اس کے جز مقرر کرنے اور ترتیل سے پڑھنے کے مسائل
(
باب: قرآن کریم کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کیا جائے
)
Abu-Daud:
The Book Of The Partaining To The Recitation Of The Qur'an, Its Devision, And Its Recitation
(Chapter: In How Many Days Should The Qur'an Be Recited ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1390.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک مہینے میں“ انہوں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ ابوموسیٰ (ابن مثنیٰ) نے یہ جملہ بار بار دہرایا۔ یعنی انہوں نے اس مدت میں کمی چاہی۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا: ”سات دنوں میں پڑھو۔“ انہوں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا، اس نے اسے سمجھا ہی نہیں۔“
تشریح:
قرآن مجید کی تلاوت فہم پر مبنی ہونی چاہیے۔ خواہ تھوڑی ہویا زیادہ عامی اور عجمی لوگوں کےلئے بلافہم تلاوت بھی یقینا باعث اجر وثواب ہے۔ اور مطلوب بھی مگر علم فہم کی اہمیت اور اولویت مسلم ہے۔ اور ذاتی عمل کی اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ اس پر مبنی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط السجين، وصححه ابن حبان (755) ) . إسناده: حدثنا ابن المثنى: ثنا عبد الصمد: أخبرنا همام: أخبرنا قتادة عن يزيد بن عبد الله عن عبد الله بن عمرو.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ ويزيد: هو ابن عبد الله بن الشخير. وهمام: هو ابن يحيى بن دينار العَوذِي. وعبد الصمد: هو ابن عبد الوارث العنبري. وابن المثنى: اسمه محمد أبو موسى. والحديث اخرجه الطيالسي (2275) ، وأحمد (2/164 و 165 و 189 و 193) من طرق أخرى عن همام... به. وتابعه شعبة عن قتادة... به مختصراً بلفظ: من قرأ القرآن في أقل من ثلاث؛ لم يفقهه . أخرجه أحمد (2/195) ، والترهذي (2/156) ؛ ولفظه: لم يفقه... ، وقال: حسن صحيح . وكتلك رواه سعيد- وهو ابن أبي عَرُوبة عن قتادة... به، كما يأتي في الكتاب (1260) -
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک مہینے میں“ انہوں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ ابوموسیٰ (ابن مثنیٰ) نے یہ جملہ بار بار دہرایا۔ یعنی انہوں نے اس مدت میں کمی چاہی۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا: ”سات دنوں میں پڑھو۔“ انہوں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا، اس نے اسے سمجھا ہی نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کی تلاوت فہم پر مبنی ہونی چاہیے۔ خواہ تھوڑی ہویا زیادہ عامی اور عجمی لوگوں کےلئے بلافہم تلاوت بھی یقینا باعث اجر وثواب ہے۔ اور مطلوب بھی مگر علم فہم کی اہمیت اور اولویت مسلم ہے۔ اور ذاتی عمل کی اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ اس پر مبنی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ”ایک ماہ میں“ کہا: میں اس سے زیادہ کی قدرت رکھتا ہوں (ابوموسیٰ یعنی محمد بن مثنیٰ اس بات کو باربار دہراتے رہے) آپ اسے کم کرتے گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے سات دن میں ختم کیا کرو۔“ کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: ”وہ قرآن نہیں سمجھتا جو اسے تین دن سے کم میں پڑھے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا صحیح نہیں، بہتر یہ ہے کہ سات دن میں ختم کیا جائے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں شبینہ وغیرہ کا جو اہتمام کیا جاتا ہے وہ درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): Yazid ibn 'Abdullah said that 'Abdullah ibn 'Amr asked the Prophet (ﷺ): In how many days should I complete the recitation of the whole Qur'an, Apostle of Allah (ﷺ)? He replied: In one month. He said: I am more energetic to complete it in a period less than this. He kept on repeating these words and lessening the period until he said: Complete its recitation in seven days. He again said: I am more energetic to complete it in a period less than this. The Prophet (ﷺ) said: He who finishes the recitation of the Qur'an in less than three days does not understand it.