Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: How Should One Undress While Relieving Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
14.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ کرتے تو جب تک زمین کے قریب نہ ہو جاتے اپنا کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدالسلام بن حرب نے اعمش سے اور انہوں نے سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے، مگر یہ سند ضعیف ہے۔
تشریح:
فائدہ: (1) یہ روایت ضعیف ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ انسان کو علیحدگی میں بھی عریاں (ننگا) ہونے سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کازیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح؛ رواه البيهقي بإسناد صحيح عنه، وصححه السيوطي) . إسناده: ثنا زهير بن حرب: ثنا وكيع عن الأعمش عن رجل عن ابن عمر. قال أبو داود: رواه عبد السلام بن حرب عن الأعمش عن أنس بن مالك؛ وهو ضعيف . قلت: وهذا؛ قد وصله الترمذي (1/21) ، والدارمي (1/171) ، وللبيهقي (1/96) من طرق عن عبد السلام به. وإنما ضعفه أبو داود من الوجهين؛ لأن في الأول: الرجلَ الذي لم يسم، وفي الثاني انقطاعاً؛ فقال الترمذي: وكلا الحديثين مرسل، ويقال: لم يسمع الأعمش من أنس ولا من أحد من أصحاب النّبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقد نظر إلى أنس بن مالك قال: رأيته يصلي... فذكر عنه حكاية في الصلاة . قال المنذري: وذكر أبو نعيم الأصبهاني أن الأعمش رأى أنس بن مالك، وابن أبي أوفى وسمع منهما، والذي قاله الترمذي هو المشهور . قلت: لكن الحديث صحيح إن شاء الله تعالى؛ فقد أخرجه البيهقي من طريق أحمد بن محمد بن أبي رجاء المِصيصِي- شيخ جليل-: ثنا وكيع: ثنا الأعمش عن القاسم بن محمد عن ابن عمر مرفوعاً بلفظ: كان إذا أراد الحاجة تنحى، ولا يرفع ثيابه... إلخ. وهذا إسناد صحيح: القاسم بن محمد: هو ابن أبي بكر الصديق؛ وهو ثقة حجة لا يسأل عن مثله. والمصيصي هذا: هو ابن عبيدالله بن أبي رجاء؛ وهو ثقة، كما قال النسائي. وقال مرة: لا بأس به . وذكره ابن حبان في الثقات .
وقد أشار السيوطي في الجامع لصحته، كما قال المناوي.
(تنبيه) : قال في عون المعبود : يوجد في بعض النسخ- بعد قول المؤلف:
وهو ضعيف - هذه العبارة: قال أبو عيسى الرملي: حدثناه أحمد بن الوليد: ثنا عمرو بن عون: أخبرنا عبد السلام... به .
قلت: أبو عيسى: هو إسحاق- وزاق أبي داود-، وهذه إشارة من الرملي إلى أنّ الحديث اتصل إليه من غير طريق شيخه أبي داود، فهذه العبارة من رواية أبي عيسى الرملي لا من رواية اللؤلؤي عن أبي داود، فلعل بعض النساخ لرواية اللؤلؤي
اطلع على رواية الرملي فأدرجها في نسخة اللؤلؤي، ومراده بذلك أنه لما كانت رواية عبد السحلام غير موصولة؛ أشار بوصلها برواية أبي عيسى الرملي . قلت: وهذه العبارة وردت في النسخة التازية في صلب الكتاب؛ كأنها من كلام أبي داود!
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ کرتے تو جب تک زمین کے قریب نہ ہو جاتے اپنا کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدالسلام بن حرب نے اعمش سے اور انہوں نے سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے، مگر یہ سند ضعیف ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: (1) یہ روایت ضعیف ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ انسان کو علیحدگی میں بھی عریاں (ننگا) ہونے سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کازیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کا ارادہ فرماتے تو اپنا کپڑا (شرمگاہ سے اس وقت تک) نہ اٹھاتے جب تک کہ زمین سے قریب نہ ہو جاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالسلام بن حرب نے اعمش سے، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے روایت کی ہے، مگر یہ ضعیف ہے ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ اعمش کا سماع انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar: When the Prophet (ﷺ) wanted to relieve himself, he would not raise his garment, until he lowered himself near the ground. Abu DAwud said: This tradition has been transmitted by 'Abd al-Salam b. Harb on the authority of al-A'mash from Anas b. Malik (RA). This chain of narrators is weak (because A'mash's hearing tradition from Anas b. Malik is not established).