باب: سجدہ تلاوت کا بیان اور یہ کہ قرآن مجید میں کتنے سجدے ہیں
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: How Many Places Are There In The Qur'an Where Prostration Is Required)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1401.
سیدنا عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، ان میں سے تین جز ء مفصل (آخری منزل) میں (سورۃ النجم، سورۃ الانشقاق، اور سورۃ العلق میں) اور دو سورۃ الحج میں ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوالدرداء ؓ کے واسطے سے نبی کریم ﷺ سے گیارہ سجدے منقول ہیں، البتہ اس کی سند کمزور ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف، عبد الله بن مُنيْن والحارث بن سعيد مجهولان) . إسناده: حدثنا محمد بن عبد الرحيم بن البرْقِي: ثنا ابن أبي مريم: أخبرنا نافع بن يزيد عن الحارث بن سعيد العُتقِي.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير عبد الله بن مُنيْن والحارث بن سعيد، وهما مجهولان. أما الأول؛ فقال الذهبي: مصري، ما روى عنه سوى الحارث بن سعيد . ومع ذلك وئقه يعقوم بن سفيان! وأما الحارث بن سعيد؛ فقال الذهبي: مصري، لا يعرف . وقال الحافظ: مقبول . يعني: عند المتابعة. والحديث أخرجه ابن ماجه (1057) ، والحاكم (1/223) ، والبيهقي (2/314 و 316) من طرق أخرى عن سعيد بن أبي مريم... به. قال أبو داود: روي عن أبي الدّرْداءِ عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إحدى عشرة سجدة. وإسناده واهٍ .
قلت: وصله الترمذي وضعفه أيضاً بقوله: حديث غريب ) .
قلت: وصله أحمد (5/194) ، والترمذي (1/112) ، وابن ماجه (1055) من طريق ابن وهب عن عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال عن عمر الدمشقي عن أم الدرداء عن أبي الدرداء: أنه سجد مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إحدى عشرة سجدة؛ منهن النجم. ومن هذا الوجه أخرجه الطحاوي (1/28) ، والبيهقي أيضاً (2/313) ، إلا أنه قال: عن سعيد بن أبي هلال عمّن أخبره عن أبي الدرداء.. فلم يذكر في إِسناده عمر.. وقال: عمن أخبره. وجمع بينهما خالد بن يزيد فقال: عن سعيد بن أبي هلال عن عمر- وهو ابن حيان الدمشقي- قال: سمعت مخبراً يخبر عن أم الدرداء... به. أخرجه الترمذي (1/112- 113) ، وقال: وهذا أصح من حديث سفيان بن وكيع عن ابن وهب . يعني: من الوجه الأول. ويؤيده أن رِشْدِيْن قال: حدثني عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال... به؛ مثل رواية خالد بن يزيد. ثم قال الترمذي: حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث سعيد بن أبي هلال عن عمر الدمشقي .
قلت: وهو مجهول. ومثله شيخه الذي لم يُسمه. وسعيد بن أبي هلال كان اختلط- كما قال أحمد-. فلا جرم أن المصنف جزم بضعف إِسناده؛ كما سبق. ولعل الشيخ الذي لم يسم هو: المهدي بن عبد الرحمن بن عبيد؛ فقد روى عثمان بن فائد عن عاصم بن رجاء بن حيوة عنه قال: حدثتني عمتي أم الدرداء عن أبي الدرداء قال: سجدْت مع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إحدى عشرة سجدة؛ ليس فيها من المفصل شيء: (الأعراف) ، و (الرعد) ، و (النحل) ، و (بني إسرائيل) ، و (مريم) ، و (الحج) - سجدة-، و (الفرقان) ، وسليمان بـ (سورة النمل) ، و (السجدة) . و (ص) وسجدة الحواميم . والهدي هذا مجهول أيضاً- كما في التقريب -، لكن عثمان بن فائد ضعيف.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
سیدنا عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے، ان میں سے تین جز ء مفصل (آخری منزل) میں (سورۃ النجم، سورۃ الانشقاق، اور سورۃ العلق میں) اور دو سورۃ الحج میں ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوالدرداء ؓ کے واسطے سے نبی کریم ﷺ سے گیارہ سجدے منقول ہیں، البتہ اس کی سند کمزور ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے۱؎ پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں۲؎ اور دو سورۃ الحج میں۳؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوالدرداء ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے گیارہ سجدے نقل کئے ہیں، لیکن اس کی سند کمزور ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: امام احمد اور جمہور اہل حدیث کے یہاں قرآن مجید میں پندرہ سجدے تلاوت کے ہیں، امام مالک کے نزدیک صرف گیارہ سجدے ہیں، مفصل اور سورہ ص میں ان کے نزدیک سجدہ نہیں ہے، امام شافعی کے نزدیک کل چودہ سجدے ہیں، سورہ ص میں ان کے نزدیک بھی سجدہ نہیں، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی کل چودہ سجدے ہیں، وہ سورہ حج میں ایک ہی سجدہ مانتے ہیں، سجدہ تلاوت جمہور کے نزدیک سنت ہے لیکن امام ابوحنیفہ اسے واجب کہتے ہیں، ائمہ اربعہ اور اکثر علماء کے نزدیک اس میں وضو شرط ہے، امام ابن تیمیہ کے نزدیک شرط نہیں ہے۔ ۲؎ : سورہ نجم، سورہ انشقت اور اقرأ میں۔ ۳؎ : یہ کل پانچ سجدے ہوئے اور دس ان کے علاوہ باقی سورتوں: اعراف، رعد، نحل، بنی اسرائیل، مریم، فرقان، نمل، الم تنزیل السجدہ، ص اور فصلت میں، اس طرح کل پندرہ سجدے ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr ibn al-'As (RA): The Prophet (ﷺ) taught me fifteen prostrations while reciting the Qur'an, including three in al-Mufassal and two in Surah al-Hajj.