باب: سجدہ تلاوت کا بیان اور یہ کہ قرآن مجید میں کتنے سجدے ہیں
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: How Many Places Are There In The Qur'an Where Prostration Is Required)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1402.
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! اور جو یہ نہ کرنا چا ہے وہ ان کی تلاوت ہی نہ کرے۔“
تشریح:
اس حدیث سے سورۃ الحج میں دو سجدوں کا اثبات ہوتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن. وهو صحيح دون قوله: ومن لم يسجد هما... إسناده: حدثنا أحمد بن لخمرو بن السرح : أخبرنا ابن وهب: أخبرني ابن لهيعة: أن مشرح بن هاعان أبا الصعب حدثه.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات ، غير مشرح بن هاعان؛ فهو مختلف فيه، فقال عثمان الدارمي عن ابن معين: ثقة . وقال عثمان: صدوق . ولم يزد أحمد على قوله: معروف . وقال ابن عدي (ق 403/1) . وأرجو انه لا بأس به . وقال ابن حبان في الثقات : يخطئ ويخالف . ثم قال في الضعفاء : يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها؛ فالصواب ترك ما انفرد به . وقول ابن حبان هذا هو الذي اعتمدوه فيه؛ لنأورده الذهبي في الضعفاء وقال: تكلم فيه ابن حبان . ولذلك لم يوثقه الحافظ في التقريب فقال: مقبول . يعني: عند المتابعة- كما هي قاعدته-. ولذلك ضعف إسناده الترمذقي كما يأتي. رفي عون المعبود (1/530) : قال المنذري: وأخرجه الترمذي وقال: حديث إسناده ليس بالقوي. هذا آخر كلامه. وفي إساده عبد الله بن لهيعة ومشرح بن هاعان، ولا يحتج بحديثهما . انتهى. وفي المرقاة : قال ميرك: لكن الحديث صحيح. أخرجه الحاكم في مستدركه من غير طريقهما، واقره الذهبي على تصحيحه. .
قلت: ولنا على هذا الكلام ملاحظتان: الأولى: أن الراجح المستفاد من كلام الأئمة في ابن لهيعة أنه لا يحتج بحديثه إذا كان من غير رواية العبادلة عنه، وهم: عبد الله بن وهب، وعبد الله بن المبارك، وعبد الله بن يزيد المقرئ؛ وأما رواية هؤلاء عنه فهي صحيحة، وأنت ترى أن المصنف قد رواه عنه من هذا الوجه، فإعلاله بابن لهيعة ليس بجيد كما فعل المنذري، وتبعه عليه جماعة كابن حجر والماوي وغيرهما- مثل ابن للوزير اليماني في الروض الباسم (1/121) -، وإنما علة الحديث مشرح هذا. والأخرى: أن قول ميرك ومن تابعه؛ أن الحاكم أخرجه من غير طريقهما؛ خطأ، فهو إنما أخرجه من طريقين عن ابن لهيعة بإسناده في الكتاب، ولم يصححه؛ بل إنه أشار إلى إعلاله بابن لهيعة، فقال عقبه: (2/390) : هذا حديث لم نكتبه مسنداً إلا من هذا الوجه، وعبد الله بن لهيعة بن عقبة الحضرمي أحد الأئمة، إنما نُقم عليه اختلاطه في آخر عمره . والحديث أخرجه الحاكم (2/390) ، والبيهقي (2/317) من طريق ابن وهب... به. وقال أحمد (4/155) : ثنا أبو عبد الرحمن: ثنا ابن لهيعة... به. وأبو عبد الرحمن هو عبد الله بن يزيد المقرئ الآنف الذكر. ثم أخرجه الحاكم من طريق إسحاق بن عيسى، والترمذي (1/114) من طريق قتيبة؛ كلاهما عن ابن لهيعة... به؛ إلا أنهما قالا: أفضلت سورة (الحج) بسجدتين؟ . وضعفه الترمذي بقوله المذكور آنفاً. وقد روي هدْا مرسلاً عن خالد بن معدان: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: فضلت سورة (الحج) على القرآن بسجدتين أخرجه أبو داود في المراسيل ، وعنه البيهقي. وقال أبو داود: قد أسند هذا، ولا يصح . وكأنه يعني حديث مشرح التقدم. ثم تبين أن كلام ابن حبان لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن؛ لأنه لما أورده في الثقات وقال: يخطئ ويخالف ؛ وقد وثقه جمع كابن معين وغيره. وقول الحافظ: مقبول - بالمعنى الذي نص عليه في المقدمة-؛ مرفوض كما بينته في، كتابي تيسير انتفاع الخلان بثقات ابن حبان ، يسر الله إتمامه. ويشهد للحديث مرسل خالد بن معدان، وإسناده جيد؛ فالحديث به صحيح دون قوله: ومن لم يسجدهما؛ فلا يقرأهما ؛ فإنه حسن. ومثله في الشهادة حديث عمرو بن العاص (248-ضعيف أبي داود) ويزداد قوة بأنه روي ذلك عن جمع من الصحابة، صحح بعضها البيهقي؛ فراجعه.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! اور جو یہ نہ کرنا چا ہے وہ ان کی تلاوت ہی نہ کرے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سورۃ الحج میں دو سجدوں کا اثبات ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqbah ibn 'Amir (RA): I said to the Apostle of Allah (ﷺ): Are there two prostrations in Surah al-Hajj? He replied: Yes; if anyone does not make two prostrations, he should not recite them.