باب: سورۃ «إذا السماء انشقت» اور «اقرأ» میں سجدہ تلاوت کا بیان
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: Prostration In Surah's Inshiqaq And Iqra')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1407.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سورۃ «إذا السماء انشقت» اور «وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» میں سجدہ کیے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ فتح خیبر کے موقع پر سن چھ ہجری میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اور یہ سجدے کرنا رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه مسلم في صحيحه . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا سفيان عن ايوب بن موسى عن عطاء بن مِيناء عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو على شرط البخاري وحده. والحديث أخرجه مسلم (2/89) ، والترمذي (1/113) ، والنسائي (1/152) ، والدارمي (1/343) ، وابن ماجه (1058) ، والطحاوي (1/210) ، وأحمد (2/249 و 461) من طرق عن سفيان بن عيينة... به. ولابن عيينة إسناد آخر، فقال أحمد (2/247) : ثنا سفيان عن يحيى بن سعيد عن أبي بكر الأنصاري عن عمر بن عبد العزيز عن أبي بكر المخزومي عن أبي هريرة: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سجد في... الحديث. ومن هذا الوجه: أخرجه النسائي أيضا، والترمذي، وابن ماجه (1059) ، وللدارمي (1/343) ؛ وليس عندهما: و (أقرا باسم ربك) ... وهو رواية للنسائي. وإسنادهم صحيح على شرط الشيخين. وله طريق أخرى عن قُرةَ بن خالد عن ابن سيرين عن أبي هريرة قال: سجد أبو بكر- وعمر رضي الله عنهما- ومن هو خير منهما صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في... فذكره. أخرجه النسائي بإسناد صحيح على شرط الشيخين.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سورۃ «إذا السماء انشقت» اور «وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» میں سجدہ کیے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ فتح خیبر کے موقع پر سن چھ ہجری میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اور یہ سجدے کرنا رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سورۃ «إذا السماء انشقت» اور «وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» میں سجدہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوہریرہ چھ ہجری میں غزوہ خیبر کے سال اسلام لائے اور رسول اللہ ﷺ کے یہ سجدے آپ کے آخری فعل ہیں۔