Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Al-Istinthar (Blowing Water From The Nose))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
141.
سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ناک جھاڑو (اور صاف کرو) دو بار یا تین بار، خوب اچھی طرح۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن القطان في بيان الوهم والإيهام (2/156/1) ، وقال الحافظ: إسناده حسن ) . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى: ثنا وكيع: ثنا ابن أبي ذئب عن قارظ عن أبي غطفان عن ابن عباس. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم رجال مسلم؛ غير قارظ- وهو ابن شيبة-؛ قال النسائي: ليس به بأس . وذكره ابن حبان في الثقات . والحديث أخرجه ابن ماجه عن وكيع... به. ثمّ أخرجه هو والبخاري في التاريخ (4/1/201) ، والحاكم (1/148) ، وأحمد (1/315) من طريق أخرى عن ابن أبي ذئب... به. ورواه عنه الطيالسي قال (رقم 2724) : ثنا ابن أبي ذئب... به؛ ولفظه: عن أبي غظفان قال: رأيت ابن عباس توضأ، فمضمض واستنشق مرتين مرتين، وقال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إذا مضمض أحدكم واستنثر؛ فليفعل ذلك مرتبن بالغتين أو ثلاثاً .وعنه أخرجه البيهقي (1/49) . وأورده الحاكم شاهدالحديث (لَقِيط) الذي بعده؛ وسكت عليه، وصححه ابن القطان، كما في التلخيص (1/405) . وقال في الفتح (1/210) : وإسناده حسن . وقال في التهذيب في ترجمة (قارظ) :
له عندهما حديث ابن عباس في الطهارة. قلت: أخرجه النسائي أيضا، ولم يذكر ذلك المزي ! قلت: ولم أره في سننه الصغرى ! وهو نفسه لم يعزه في التلخيص للنسائي؛ بل جعل مكانه: ابن الجارود، فالظاهر أنه يعني السنن الكبرى له! ورواه الطبراني في الكبير (3/98/1) ، وزاد: والأذنان من الرأس . وسنده صحيح؛ وهو من شواهد حديث أبي أمامة المتقدم برقم (123) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘