Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: The Prostration In Surah Sad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1410.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر سورۃ ص کی تلاوت کی۔ جب سجدے کی آیت پر پہنچے تو آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر ایک دوسرا موقع آیا اور آپ نے اسی کی تلاوت فرمائی۔ جب آپ سجدے کی آیت پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک نبی (سیدنا داود ؑ) کی توبہ کا ذکر ہے لیکن میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم سجدہ کرنا چاہتے ہو۔“ چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
تشریح:
خطیب دوران خطبہ میں اگر سجدہ کی آیت تلاوت کرے۔ تو منبر سے اُتر کر سجدہ کر سکتا ہے۔ اور سامعین بھی اس کی اقتداء کریں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، رجاله رجال الصحيح ، وصححه ابن خزيمة وابن حبان (2754) ، والحاكم والبيهقي وابن حزم والذهبي . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا ابن وهب: أخبرني عمرو- يعني: ابن الحارث- عن ابن أبي هلال عن عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سَرْحٍ عن أبي سعيد الخدري.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ غير أحمد بن صالح، فعلى شرط البخاري وحده. إلا أن ابن أبي هلال- واسمه سعيد- مع ثقته واحتجاج الشيخين به؛ فقد رماه أحمد بن حنبل بالاختلاط. وقال ابن حزم: ليس بالقوي . قال الحافظ: ولعله اعتمد على قول الإمام أحمد فيه .
قلت: وكأن ابن حزم نسي قوله هذا! فصحح الحديث كما يأتي، فلعل ذلك منه لشواهده، كما هو قولنا. والحديث أخرجه ابن حزم في المحلى (5/61) من طريق المصنف، ثم صححه (5/107) . وأخرجه الطحاوي في مشكل الآ ثار ، (4/31) ، وابن حبان (690) ، والحاكم (2/431) ، وعنه البيهقي (2/318) من طرق أخرى عن ابن وهب... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! وقال البيهقي: حديث حسن الإسناد صحيح . وتابعه الليث بن سعد: حدثني خالد بن يزيد... به: أخرجه الدارمي (1/342) ، وابن حبان (689) من طريق ابن حزيمة، وقد أخرجه هذا أيضا في صحيحه (1/188/1) . ولأبي سعيد الخدري حديث آخر في الباب، يرويه بكر بن عبد الله المزني عنه قال: رأيت- فيما يرى النائم- كأني افتتحت سورة (ص) ، حتى انتهيت إلى السجدة، فَسَجَدتِ الدواةً والقلمً وما حول، فأخبرت بذلك النبيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فسجد فيها. وفي رواية: فلم يزل يسجد فيها. أخرجه أحمد (3/78 و 84) ، والحاكم (2/432) - وسكت عليه-. وقال الذهبي: صحيح على شرط مسلم . وهو كما قال؛ إن كان سمعه منه المزني؛ فإنه قال في رواية البيهقي (2/320) : أخبرني مُخْبِز... ويشهد للحديث أيضا: حديث ابنعباس الذي قبله، مع طريق سعيد بن جبير عنه التي ذكرتها.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر سورۃ ص کی تلاوت کی۔ جب سجدے کی آیت پر پہنچے تو آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر ایک دوسرا موقع آیا اور آپ نے اسی کی تلاوت فرمائی۔ جب آپ سجدے کی آیت پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک نبی (سیدنا داود ؑ) کی توبہ کا ذکر ہے لیکن میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم سجدہ کرنا چاہتے ہو۔“ چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
خطیب دوران خطبہ میں اگر سجدہ کی آیت تلاوت کرے۔ تو منبر سے اُتر کر سجدہ کر سکتا ہے۔ اور سامعین بھی اس کی اقتداء کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۃ ”ص“ پڑھی، آپ منبر پر تھے جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر ایک دن کی بات ہے کہ آپ نے اس سورۃ کی تلاوت کی، جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ سجدہ دراصل ایک نبی۱؎ کی توبہ تھی، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو رہے ہو.“ چنانچہ آپ اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: اس سے مراد داود علیہ السلام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'id al-Khudri (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) recited surah Sad on the pulpit. When he reached the place of prostration (in the surah), he descended and prostrated himself and the people prostrated with him. When the next day came, he recited it. When he reached the place of prostration (in the surah), the people became ready for prostration. Thereupon the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: This is the repentance of a Prophet; but I saw you being ready for prostration. So he descended and prostrated himself and the people prostrated along with him.