باب: جب کوئی سجدے کی آیت سنے اور سواری پر ہو یا نماز میں نہ ہو تو...
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: A Person On A Mount Hears A Verse Of Prostration, Or Someone Who Is Not Praying (Should He Prostrate?))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1412.
سیدنا ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم پر کوئی سورت تلاوت فرماتے، ابن نمیر نے کہا: نماز کے علاوہ، عام حالت میں، پھر دونوں کا بیان ہے کہ آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کرتے، حتیٰ کہ ہم میں سے بعض کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی۔
تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کہ اذدحام کی وجہ سے اگر کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی۔ تو وہ اپنے ساتھی کی کمر پر ہی سجدہ کرلیتا۔(فتح الباري:723/2) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قاری اور سامع نماز میں نہ ہوں۔ تو ان دونوں کا آپس میں ربط ضروری نہیں۔ خواہ کوئی لمبا سجدہ کرے۔ اور دوسرا مختصر ایک پہلے اٹھ جائے۔ اور دوسرا بعد میں اس طرح اگر پڑھنے والا سجدہ نہ بھی کرے۔ تو سننے والا کرسکتا ہے۔ با وضو ہو یا بے وضو مرد ہو عورت یا بچہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه في صحيحيهما . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ننا يحيى بن سعيد. (ح) وثنا أحمد بن أبي شعيب: ثنا ابن نمير- المعنى- عن عبيد الفه عن نافع عن ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيحين من الوجه الأول، وعلى شرط البخاري من الوجه الآخر؛ فإن أحمد بن أيهب شعيب لم يخرج له مسلم، واسم أبي شعيب: مسلم- وهو جده-، واسم أبيه: عبد القه. وقد تابعه ابن حنبل كما يأتي. والحديث في المسند (2/17) ... بهدا الإسناد. ورواه بالإسناد الآخر أيضا فقال (2/142) : ثنا ابن نمير... به. وأخرجه البخاري (1/275) ، ومسلم (2/88) من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد القطان... به. ورواه الحاكم (1/222) من طريهت عيسى بن يونس: ثنا عبيد الله بن عمر... به نحوه.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
سیدنا ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم پر کوئی سورت تلاوت فرماتے، ابن نمیر نے کہا: نماز کے علاوہ، عام حالت میں، پھر دونوں کا بیان ہے کہ آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کرتے، حتیٰ کہ ہم میں سے بعض کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کہ اذدحام کی وجہ سے اگر کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی۔ تو وہ اپنے ساتھی کی کمر پر ہی سجدہ کرلیتا۔(فتح الباري:723/2) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قاری اور سامع نماز میں نہ ہوں۔ تو ان دونوں کا آپس میں ربط ضروری نہیں۔ خواہ کوئی لمبا سجدہ کرے۔ اور دوسرا مختصر ایک پہلے اٹھ جائے۔ اور دوسرا بعد میں اس طرح اگر پڑھنے والا سجدہ نہ بھی کرے۔ تو سننے والا کرسکتا ہے۔ با وضو ہو یا بے وضو مرد ہو عورت یا بچہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں سورۃ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) ”نماز کے علاوہ میں“ (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ ﷺ (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ایسی صورت میں وہ اپنے ہاتھ، یا ران، یا دوسرے کی پشت پر سجدہ کر لیتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلمﷺ) would recite to us a surah (according to the version of Ibn Numair) outside the prayer (the agreed version goes), then he would prostrate along with him, and none of us could find a place for his forehead.