Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Prostration while reciting the Qur'an
(Chapter: What Should One Say In Prostration ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1414.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ قرآن میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے «سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ» ”میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے۔“
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔ اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔ لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771) نیز امام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے سنن نسائی۔ الدعا فی السجود) البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔ جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔ اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: 283/1، 284) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔ کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔ (دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔ لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔ حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔ لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم۔ صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔ (فتوحات ربانیہ 276/2) امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمد شاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔ یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وصححه الترمذي والحاكم والذهبي .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا إسماعيل. ثنا خالد الحَذاء عن رجل عن أبي العالية عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير الرجل الذي لم يُسَم، فهو مجهول. غير أن ذكره في السند شاذ؛ تفرد به إسماعيل- وهو ابن عُلَيةَ- دون سائر أصحاب الحذاء كما يأتي. والحديث أخرجه البيهقي (2/325) من طريق المصنف. وابن أبي شيبة في المصنف (2/25) : حدثنا ابن عُلَيةَ... به. وأخرجه أحمد (6/30) ، وابن أبي شيبة (2/20) : ثنا هًشَيْم: ثنا خالد عن أبي العالية... به؛ لم يذكر الرجل في إسنادد . وتابعه عبد الوهاب الثقفي: حدننا حالا- الحذاء... به. أخرجه النسائي (1/169) ، والترمذي (1/114) ، وقال: حديث حسن صحيح . والحاكم (1/220) ، وقال: صحيح على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي؛ وهو كما قالا. وزاد الحاكم: فتبارك الله أحسن الخالقين . وهي زيادة شاذة عندي؛ لتفرد الحاكم بها في هذه الطريق دون الأخرين، ولعدم ورودها في شيء من الطرق الأخرى عن الحذاء، وإنما وردت في سجود الصلاة، كما تقدم في حديث علي (738) . وتابعه أيضا وً هَيْبً بن خالد عن الحذاء... به: أخرجه الحاكم. فهؤلاء ثلاثة من الثقات- هشيم، وعبد الوهاب الثقفي، ووهيب بن خالد- اتفقوا على أنه ليس في السند: (عن رجل) كما قال ابن عُلَيةَ؛ فروايتهم أرجح. والله أعلم. وله شاهد مرسل عن قيس بن سَكَن وشيخ آخر: عند ابن أبي شيبة.
سجدۂ تلاوت مستحب ہے ‘لہذا سے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے ‘البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے کہ انسان اس کے تر ک پر گناہ گار ہو کیونکہ حضرت زید بن ثابت نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے سورۃ النجم کی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔(صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1072:1073) اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورۂ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ ٔتلاوت فرض نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ کا کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔( صحیح البخاری ‘سجود القرآن و سننھا‘حدیث:1077) نبئ کریمﷺ اور حضرت عمر کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدۂ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے ‘خواہ فجر کے بعد ہی وقت کیوں نہ ہو ‘جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ‘کیونکہ اس سے ہے جیسے سجدہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
٭سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز کی طرح ہے افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے ‘سات اعضاء پر سجدہ کرے ۔سجدے کو جاتے ہوئے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے ‘جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھ اللہ اکبر کہتے ۔( سنن النسائی ‘التطبیق ‘حدیث:1150‘1151) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے سجدۂ تلاوت بھی چونکہ سجدۂ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے ‘لہذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدہ کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔(سنن ابی داود‘سجود القرآن‘ حدیث :1413 ومسند احمد:2/17) نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں ۔بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں‘لہذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔
٭سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے)کے لیے سنت ہے اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کی وجہ سے سجدہ کرنا چاہیے۔
٭جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراءت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیات سجدے والی ہو۔
٭افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت با وضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
٭قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورۂ حج میں ایک سجدے ک قائل ہیں جبکہ سورۂ حج میں دو سجدے کا ثبوت احادیث س ملتا ہے یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر فرماتے ہین کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر‘سورۃ الانبیاء‘آیت:18) نیز محقق عصر شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔(تعلیقات المشکوٰۃ‘باب سجود القرآن‘ حدیث:1030)نیز ابوداود کی حدیث کو ‘جس میں سورۂ حج کے دو سجدوں کا ذکر ہے شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے ملا حظہ ہوحدیث 1402 کی تحریج و تحقیق ۔شوافع سورۂ ص کے سجدے کا قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبئ کریم ﷺ کو سورۂ ص کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری‘سجود القرآن‘حدیث:1069)احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے لہذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
٭سجدۂ تلاوت کی معروف دعا (سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘حدیث:771) کا سجدہ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا سند سے ثابت نہیں ۔ تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ‘اور وہ یہ ہے (اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ،)(جامع الترمذى .مايقول فى سجود القرآن .حديث :579 وسنن ابن ماجه حديث: 1053 و صحيح ابن خزيمه حديث:562 ْ563)حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے فتوحات ربانیہ :2/276 نیز امام ابن خزیمہ ‘حاکم ابن حبان اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ‘ لہذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔(مزید تفصیل کیلیے دیکھیے‘حدیث:1414 کے فوائد)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ قرآن میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے «سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ» ”میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔ اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔ لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771) نیز امام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے سنن نسائی۔ الدعا فی السجود) البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔ جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔ اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: 283/1، 284) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔ کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔ (دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔ لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔ حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔ لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم۔ صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔ (فتوحات ربانیہ 276/2) امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمد شاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔ یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار «سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ» یعنی ”میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت و طاقت سے اسے پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھ بنائے“ کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) prostrated himself at night when reciting the Qur'an. He said repeatedly: My face prostrates itself to Him Who created it and brought forth its hearing and seeing by His might and power.