تشریح:
یہ حدیث اس باب سے متعلق نہیں ہے۔ شاید یہاں باب اور اس کا عنوان سہواً رہ گیا ہے (عون المعبود) بہرحال اس حدیث میں وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔ کہ اگر وہ سوتے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے۔ تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔ اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا نماز فجر کے بعد پڑھ لیا جائے۔ کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں نہ پڑھے جاسکیں۔ تو پھر انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کےلئے ہے۔ جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھئے۔(حاشیة ترمذی۔ أحمد محمد شاکر: ج2، ص: 333) اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے۔ کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام الیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔ دیکھئے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین۔ باب: 18، حدیث: 746) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے۔ کہ جس کے وتر رہ جایئں۔ تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضاء جفت کی شکل میں دے۔ یعنی ایک وتر کی جگہ د و رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا شخص کے لئے ضروری ہوگا۔جو قیام اللیل (نماز تہجد) کا عادی ہوگا۔ عام وتروں کی قضا وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي .إسناده: حدثنا محمد بن عوف: ثنا عثمان بن سعيد عن أبي غسان محمدابن مُطَرف المدني عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن عوف، وشيخه عثمان بن سعيد- وهو ابن دينار-؛ وهما ثقتان. والحديث أخرجه جماعة آخرون، منهم الحاكم، وصححه، ووافقه الذهبي، وهو مخرج في الأرواء (422) ، وذكرت له هناك طيقاً أخرى عن عطاء.