Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Al-Istinthar (Blowing Water From The Nose))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
144.
جناب محمد بن یحییٰ بن فارس کی سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ کہا کہ ”جب تو وضو کرے تو کلی کر۔“
تشریح:
فوائد و مسائل: (1)مہمان کی میزبانی اس کاحق ہے اورحسب استطاعت عمدہ طور پر کی جائے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزران بحمد للہ بہت اچھی اور آپ کا فقر اختیاری تھا نہ کہ اضطراری۔ اور غنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔ (3) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار باوقار اور تیز ہوتی تھی۔ آپ قدم اٹھا کر چلتے تھے۔ گویا آگے کو جھکے ہوں۔ (4) آپ پسند فرماتے تھے کہ آپ کی آمدنی ایک حد تک رہے۔ (5) مہمان یا ساتھی کے متوقع شبہات کا از خود ازالہ کر دینا مستحب ہے۔ (6) بیوی اگر زبان دراز ہو تو اس بنا پر وہ طلاق کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ (7) اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ایک حد تک جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے، مگر شدید نہ ہو۔ (8) وضو ہمیشہ مکمل کرنا چاہیے، خلال کرنا مستحب اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ (9) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے فصیح اللسان تھے۔ (10) خزیرہ طعام کی وہ قسم ہے کہ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ابالے جاتے ہیں، جب وہ گل جاتا ہے تو اس پر آٹا ڈال دیتے ہیں۔ اگر گوشت کے بغیر پکایا جائے تو اسے عصیدہ کہتے ہیں۔ بہر حال دونوں ہی اہل عرب کی غذا ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه الحافظ) . إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا أبو عاصم: ثنا ابن جريج... بهذا الحديث. وهذا إسناد صحيح أيضا، وكذلك قال الحافظ في فتح الباري (1/211) . والحديث أخرجه الدارمي (1/179) مختصراً: أخبرنا أبو عاصم ... به بلفظ : إذا توضأت؛ فأسبغ وضوءك، وخلِّل بين أصابعك .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب محمد بن یحییٰ بن فارس کی سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ کہا کہ ”جب تو وضو کرے تو کلی کر۔“
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1)مہمان کی میزبانی اس کاحق ہے اورحسب استطاعت عمدہ طور پر کی جائے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزران بحمد للہ بہت اچھی اور آپ کا فقر اختیاری تھا نہ کہ اضطراری۔ اور غنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔ (3) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار باوقار اور تیز ہوتی تھی۔ آپ قدم اٹھا کر چلتے تھے۔ گویا آگے کو جھکے ہوں۔ (4) آپ پسند فرماتے تھے کہ آپ کی آمدنی ایک حد تک رہے۔ (5) مہمان یا ساتھی کے متوقع شبہات کا از خود ازالہ کر دینا مستحب ہے۔ (6) بیوی اگر زبان دراز ہو تو اس بنا پر وہ طلاق کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ (7) اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ایک حد تک جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے، مگر شدید نہ ہو۔ (8) وضو ہمیشہ مکمل کرنا چاہیے، خلال کرنا مستحب اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ (9) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے فصیح اللسان تھے۔ (10) خزیرہ طعام کی وہ قسم ہے کہ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ابالے جاتے ہیں، جب وہ گل جاتا ہے تو اس پر آٹا ڈال دیتے ہیں۔ اگر گوشت کے بغیر پکایا جائے تو اسے عصیدہ کہتے ہیں۔ بہر حال دونوں ہی اہل عرب کی غذا ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس طریق سے بھی ابن جریج سے یہی حدیث مروی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو کلی کرو“۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The version of Ibn Juraij has the working: “If you perform ablution, then rinse your mouth”.