مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1498.
سیدنا عمر ؓ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عمرہ کرنے کی رخصت چاہی۔ آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: ”میرے پیارے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں مت بھولنا۔“ آپ ﷺ نے ایسے الفاظ فرمائے کہ مجھے ان کے بدلے دنیا بھی ملے تو پسند نہیں۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں بعد میں جناب عاصم سے مدینہ میں ملا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی۔ ان کے الفاظ یہ تھے: ”میرے عزیز بھائی! ہمیں اپنی دعا میں شریک رکھنا۔“
تشریح:
1۔ یہ روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن معنًا صحیح ہے۔ یعنی اس سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ دوسرے دلائل سے بھی وہ ثابت ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بھائی کہنا۔ 2۔ اجتماعی زندگی میں کسی بڑے اہم کام کے اقدام کےلئے بزرگوں سے اجازت لینا۔ 3۔ اہل فضل سے دعائے خیر کی درخواست کرنا بالخصوص جب وہ کسی فضیلت والے عمل میں ہوں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ عاصم بن عبيد الله قال الحافظ: ضعيف . إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا شعبة عن عاصم بن عبيد الله.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير عاصم بن عبيد الله، فهو ضعيف- كما في التقريب -، وهو عاصم بن عبيد الله بن عاصم ابن عمر بن الخطاب. والحديث أخرجه الطيالسي في مسنده (رقم (10) ) : ثنا شعبة... به. وأخرجه البيهقي (5/251) من طريق أخرى عن سليمان بن حرب... به. وأخرجه أحمد (1/29) من طريق أخرى عن شعبة... به. وتابعه سفيان الثوري عن عاصم... به. أخرجه أحمد (2/59) ، والترمذي (2/274) ، وابن ماجه (2/211) والبيهقي أيضاً، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ! كذا قال! وهو من تساهله الذي نبهْتُ عليه قريباً، وقد تعقبه المنذري في مختصره (2/146) بأن عاصماً قد تكلم فيه غير واحد من الأئمة. ومنه تعلم خطأً ابن تيمية رحمه الله في جزْمِه بنسبة الحديث إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ حيث قال في تلخيص الاستغاثة (ص 40) : وقد قال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعمر لما ودعه: لا تنْسنا من دعائك- أو: أشْرِكْنا في دعائك-! . ونحوه في جوابٍ له عمن سأله عن الاستنجاد بالقبور في مجموع الفتاوى (27/64) ! ولعله لم يستحضر علته حين كتب ذلك، وكان في حفظه تصحيح الترمذي إياه. فقد ذكر تخريجه في القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة (1/192- المجموع) ، وممن عزاه إليه: الترمذي وصححه ! فإنه كثير الاعتماد على حفظه رحمه الله تعالى.
سیدنا عمر ؓ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عمرہ کرنے کی رخصت چاہی۔ آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: ”میرے پیارے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں مت بھولنا۔“ آپ ﷺ نے ایسے الفاظ فرمائے کہ مجھے ان کے بدلے دنیا بھی ملے تو پسند نہیں۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں بعد میں جناب عاصم سے مدینہ میں ملا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی۔ ان کے الفاظ یہ تھے: ”میرے عزیز بھائی! ہمیں اپنی دعا میں شریک رکھنا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن معنًا صحیح ہے۔ یعنی اس سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ دوسرے دلائل سے بھی وہ ثابت ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بھائی کہنا۔ 2۔ اجتماعی زندگی میں کسی بڑے اہم کام کے اقدام کےلئے بزرگوں سے اجازت لینا۔ 3۔ اہل فضل سے دعائے خیر کی درخواست کرنا بالخصوص جب وہ کسی فضیلت والے عمل میں ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: ”میرے بھائی! مجھے اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا۔“ آپ نے یہ ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (راوی حدیث) شعبہ کہتے ہیں: پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت «لا تنسنا يا أخي من دعائك» کے بجائے «أشركنا يا أخي في دعائك» کے الفاظ کہے ”اے میرے بھائی ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar (RA) ibn al-Khattab: I sought permission of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to perform 'umrah. He gave me permission and said: My younger brother, do not forget me in your supplication. He ('Umar (RA)) said: He told me a word that pleased me so much so that I would not have been pleased if I were given the whole world. The narrator Shu'bah (RA) said: I then met Asim at Madinah. He narrated to me this tradition and reported the wordings: "My younger brother, share me in your supplication".