Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Injunctions about Witr
(Chapter: About Seeking Forgiveness)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1514.
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو استغفار کو اختیار کر لے وہ ”مصر“ (اصرار کرنے والے) لوگوں میں نہیں، خواہ ایک دن میں ستر بار گناہ کا اعادہ کرے۔“
تشریح:
1۔ استغفار کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا۔ کہ وہ ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دے۔ اور بندے کو رُسوا نہ کرے۔ 2۔ اپنے گناہوں پراڑنا اور اصرار کرنا۔ ظالموں اور گناہ گاروں کی عادت ہے۔ (يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ)(الجاثیة۔8) اللہ کی آیات کو سنتا ہے۔ جو کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر اڑا رہتا ہے۔ (اپنے گناہوں پر) تکبرکرتے ہوئے۔ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ تو ایسے کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیئے۔ جب کہ متقی انسان کی صفت اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ (وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ)(آل عمران۔135) متقی اپنے کیے پراصرار نہیں کرتے۔ اور وہ جانتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة مولى الصِّديق. وقال الترمذي: ليس إسناده بالقوي ) . إسناده: حدثنا النُفيْلِيُّ: ثنا مخْلد بن يزيد: ثنا عثمان بن واقد العُمري عن أبي نُصيْرة عن مولىً لأبي بكر الصديق.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله موثقون؛ غير مولى الصديق فهو مجهول. والحديث أخرجه الترمذي (2/273) ، والبيهقي في الشعب (2/358/2) من طريق أخرى عن عثمان بن واقد... به. وقال الترمذي: حديث غريب. إنما نعرفه من حديث أبي نُصيْرة، وليس إسناده بالقوي .
قلت: وعلته مولى أبي بكر، قال الحافظ في التقريب : مجهول . وأما الحافظ ابن كثير فقال في التفسير (1/408) - بعد أن ساق الحديث هن رواية المؤلف والترمذي والبزار وأبي يعلى في مسنديهما -: وقول علي بن المديني والترمذي: ليس إسناد هذا الحديث بذاك. فالظاهر أنه لأصل جهالة مولى أبي بكر، ولكن جهالة مثله لا تضُر؛ لأنه تابعي كبير، ويكفيه نسبته إلى أبي بكر. فهو حديث حسن ! كذا قال! وما أرى له وجْهاً من القبول؛ لأن الرجل مجهول العين، أما لو كان مجهول الحال، وقد روى عنه جمع من الثقات، ولم يظهر له حديث منكر؛ فنعم. والله أعلم. وقد وجدت للحديث طريقاً أخرى من حديث ابن عباس؛ لكن فيه متروك، ولذا أخرجته في الضعيفة (4474) .
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو استغفار کو اختیار کر لے وہ ”مصر“ (اصرار کرنے والے) لوگوں میں نہیں، خواہ ایک دن میں ستر بار گناہ کا اعادہ کرے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ استغفار کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا۔ کہ وہ ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دے۔ اور بندے کو رُسوا نہ کرے۔ 2۔ اپنے گناہوں پراڑنا اور اصرار کرنا۔ ظالموں اور گناہ گاروں کی عادت ہے۔ (يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ)(الجاثیة۔8) اللہ کی آیات کو سنتا ہے۔ جو کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر اڑا رہتا ہے۔ (اپنے گناہوں پر) تکبرکرتے ہوئے۔ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ تو ایسے کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیئے۔ جب کہ متقی انسان کی صفت اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ (وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ)(آل عمران۔135) متقی اپنے کیے پراصرار نہیں کرتے۔ اور وہ جانتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو استغفار کرتا رہا اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا اگرچہ وہ دن بھر میں ستر بار اس گناہ کو دہرائے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: صغیرہ گناہوں پر اصرار سے وہ کبیرہ ہو جاتے ہیں، اور کبیرہ پر اصرار کرنے سے آدمی کفر تک پہنچ جاتا ہے، لیکن اگر ہر گناہ کے بعد صدق دل سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کی پختہ نیت کرے، مگر بدقسمتی سے پھر اس میں مبتلا ہوجائے تو یہ اصرار نہ ہو گا، اس طرح اس حدیث سے استغفار کی فضیلت ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakr as-Siddiq (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: He who asks pardon is not a confirmed sinner, even if he returns to his sin seventy times a day.