Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wiping Over The Khuff)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
155.
سیدنا بریدہ (بریدہ بن حصیب) ؓ راوی ہیں کہ نجاشی (والی حبشہ) نے رسول اللہ ﷺ کے لیے سیاہ رنگ کے دو سادہ موزے ہدیہ بھجوائے تو آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا تو ان پر مسح کیا۔ جناب مسدد نے (احمد بن شعیب کی روایت کے بالمقابل «حدثنا» کی بجائے «عن» سے روایت کی اور) «عن دلهم بن صالح» کہا ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ روایت اہل بصرہ کے تفردات میں سے ہے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) ہدیہ قبول کرنا اور قبول کے بعد فوراً استعمال میں لانا بھی جائز ہے اور یہ قبول کر لیے جانے کی علامت ہوتی ہے۔ (2) چمڑا رنگنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ (3) اس روایت کو اہل بصرہ کے تفردات میں سے شمار کرنا امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے تسامحات میں سے ہے۔ (عون المعبود)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وكذا قال الترمذي) . إسناده: حدثنا مسدد وأحمد بن أبي شعيب الحَراني قالا: ثنا وكيع: ثنا
دلْهَم بن صالح عن حُجَيْر بن عبد الله عن ابن بريدة. وهذا إسناد حسن في الشواهد، رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير دلهم بن صالح؛ فضعفوه؛ غير المصنف فقال: ليس به بأس . وقال أبو حاتم: هو أحب إلي من بكير بن عامر وعيسى بن المسيب . وشيخه حجير بن عبد الله؛ قال ابن عدي: لا يعرف .وذكره ابن حبان في الثقات ، وحسن له الترمذيُ هذا الحديث كما يأتي. ثم قال المصنف عقبه: قال مسدد: عن دلهم بن صالح. قال أبو داود: هذا مما تفرد به أهل البصرة ! قلت: وقد تعقب السيوطي المصنف في قوله: هذا مما تفرد به أهل البصرة ؛ بما حاصله- كما في عون المعبود -: أنه ليس في رواة هذا الحديث بصري؛ سوى مسدد، ولم يتفرد به، فنسبة التفرد إلى أهل البصرة وَهَمٌ من المؤلف الإمام رضي الله عنه ! والله أعلم. والحديث أخرجه أحمد (5/352) : ثنا وكيع: ثنا دلهم بن صالح... به. وكذلك أخرجه الترمذي في سننه (2/134- طبع بولاق) ، وفي الشمائل أيضا (1/156) ، وابن ماجه (1/95) عن وكيع. وأخرجه البيهقي (1/282- 283) من طريقين آخرين عن دلهم... به. وقال الترمذي : هذا حديث حسن، إنما نعرفه من حديث دلهم . وقد ساق له البيهقي شاهداً من طريق الشعبي عن المغيرة بن شعبة: أنَ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأ ومسح على خفعه. قال: فقال رجل عند المغيرة بن شعبة: يا مغيرة! ومن أين كان للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خفان؟ قال: فقال المغيرة: أهداهما إليه النجاشي. قال البيهقي: والشعبي إنما روى حديث المسح عن عروة عن المغيرة عن أبيه. وهذا شاهد لحديث دلهم بن صالح .وحديث الشعبي عن عروة مضى (برقم 139) ؛ ليس فيه: يامغيرة... بلخ. لكن إسناد هذه الزيادة صحيح؛ فهو شاهد قوي لهذا الحديث. والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا بریدہ (بریدہ بن حصیب) ؓ راوی ہیں کہ نجاشی (والی حبشہ) نے رسول اللہ ﷺ کے لیے سیاہ رنگ کے دو سادہ موزے ہدیہ بھجوائے تو آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا تو ان پر مسح کیا۔ جناب مسدد نے (احمد بن شعیب کی روایت کے بالمقابل «حدثنا» کی بجائے «عن» سے روایت کی اور) «عن دلهم بن صالح» کہا ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ روایت اہل بصرہ کے تفردات میں سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) ہدیہ قبول کرنا اور قبول کے بعد فوراً استعمال میں لانا بھی جائز ہے اور یہ قبول کر لیے جانے کی علامت ہوتی ہے۔ (2) چمڑا رنگنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ (3) اس روایت کو اہل بصرہ کے تفردات میں سے شمار کرنا امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے تسامحات میں سے ہے۔ (عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو سادہ سیاہ موزے ہدیے میں بھیجے، تو آپ ﷺ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa al-Ash'ari (RA): Negus presented to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) two black and simple socks. He put them on; then he performed ablution and wiped over them. Musaddad reported this tradition from Dulham b. Salih. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has been narrated by the people of Basrah alone.