Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wiping Over The Khuff)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
156.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (جب اپنے) موزوں پر مسح کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول رہے ہیں؟ فرمایا: ”(نہیں) بلکہ تم بھول رہے ہو۔ مجھے میرے رب نے اسی بات کا حکم دیا ہے۔“
تشریح:
فائدہ: یہ روایت تو ضعیف ہے۔ تاہم دوسری صحیح روایت سے یہ مسئلہ یعنی موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف من أجل بكير، والحديث في الصحيحين وغيرهما؛ دون قوله: فقلت... إلخ. فهذه الزيادة منكرة) . إسناده: حدثنا أحمد بن يونس: ثنا ابن حي- وهو الحسن بن صالح- عن بُكيْرِ بن عامر البجلِي عن عبد الرحمن بن أبي أنعم (كذا في أصل الشيخ، والصواب: (نُعْم) ، كما في التهذيب ، و التقريب ، و التازية .) . وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال، مسلم؛ غير بكير بن عامر؛ والأكثرون على تضعيفه؛ ولذلك قال الحافظ في التقريب : إنه ضعيف .
والحديث أخرجه الحاكم (1/170) ، والبيهقي (1/271- 272) ، وأحمد (4/246 و 253) من طرق عن بكير... به. وقال الحاكم: إسناده صحيح، ولم يخرج الشيخان قوله: بهذا أمرني ربي ... ! ووافقه الذهبي! وذلك من أوهامه- بل من أوهامهما-؛ فقد قال الذهبي في ترجمة بكير هذا من الميزان : ضعفه ابن معين والنسائي. وقال أبو زرعة: ليس بقوي. وقال أحمد: ليس بذاك. وقال مرة: ليس به بأس. وقال ابن عدي: رواياته قليلة، ولم أجد له متناً
منكراً... ؛ ثم ساق له هذا الحديث. فأنت ترى أنه نقل عن الجمهور تضعيفة ؛ فكيف يحكم علي، الحديث بالصحة؟! لا سيما وأن للحديث طرقاً كثيرة جداً في الصحيحين و المسانيد وغيرها ولم تجد- فيما وقفنا- منها هذه للزيادة؛ فذلك مما يوهن من شأنها، ويقتضي الحكمٍ عليها بالنكارة؛ لتفرد هذا الضعيف بهذا. ولو أنا وجدنا له متابعاً أو شاهداً
معتبرا؛ لأوردناه في الكتاب الأخر، كما فعلنا في حديث آخر لبكير هذا (رقم 143) ؛ ولكنا لم تجد إلا حديثاً رواه ابن ماجه (1/195- 196) من حديث جابر بلفظ: إنما أمرنا بالمسح - وقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بيده هكذا- من أطراف الأصابع إلى أصل الساق ؛ وخطط بالأصابع. ولكن إسناده ضعيف جداً، كما قال الحافظ في التلخيص (2/393) . (تنبيه) : وقع للشوكاني رحمه الله في النيل (1/157) وهم فاحش في هذا الحديث؛ حيث قال: إسناده صحيح، ولم يتكلم عليه أبو داود ولا المنذري في تخريج السنن ولا غيرهما، وقد رواه أبو داود في (الطهارة) عن هُدْبة بن خالد عن همام عن قتادة عن الحسن، وعن زرارة بن أبي أوفى كلاهما عن المغيرة. وفي رواية أبي عيسى الرملي عن أبي داود: عن الحسن بن أعين عن زرارة بن أبي أوفى عن المغيرة: وهؤلاء كلهم رجال الصحيح . وما يُظن من تدليس الحسن قد ارتفع بمتابعة زرارة له ! قلت: وهذا الكلام في هذا الإسناد صحيح لا غبار عليه؛ ولكنك ترى أن الحديث ليس بهذا الإسناد؛ وإنما هو لحديث آخر، أوردناه في للكتاب الأخر (رقم 140) . فالظاهر أن الشوكاني رحمه الله- حين الكتابة عن هذا الحديث الضعيف- انتقل نظره إلى إسناد الحديث الصحيح؛ فوقع في هذا الخطأ الواضح! والمعصوم من عصمه الله تعالى.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (جب اپنے) موزوں پر مسح کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول رہے ہیں؟ فرمایا: ”(نہیں) بلکہ تم بھول رہے ہو۔ مجھے میرے رب نے اسی بات کا حکم دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت تو ضعیف ہے۔ تاہم دوسری صحیح روایت سے یہ مسئلہ یعنی موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلکہ تم بھول گئے ہو، میرے رب نے مجھے اسی کا حکم دیا ہے“۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Mughirah b. Shu’bah (RA) said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) wiped over the socks and I said: Messenger of Allah, have you forgotten? He said: My Lord has commanded me to do this.