Abu-Daud:
Zakat (Kitab Al-Zakat)
(Chapter: Zakat On Pasturing Animals)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1575.
بھز بن حکیم اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر چالیس اونٹوں میں جو کہ جنگل میں چرتے ہوں، ایک بنت لبون (دو سالہ مادہ) ہے اور انہیں ان کے حساب سے جدا جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص اجر و ثواب کی نیت سے دے گا، ابن العلاء نے «مؤتجرا بها» کے الفاظ کہے، تو اس کے لیے اس کا اجر و ثواب ہے اور جو (زکوٰۃ کو) روکے گا تو ہم اس سے وصول کریں گے اور آدھا مال (مزید بھی) یہ ہمارے رب تعالیٰ عزوجل کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، اس میں آل محمد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہے کہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیا جائے گا۔ (2) صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ اور آپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا۔ اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ [ان هذهِ الصدقةَ إنما هِىَ أوساخُ الناسِ‘ و إنها لاتحلُّ لمحمدٍ ولا لآلِ محمدٍ](سنن أبي داود‘ الخراج‘ حدیث:2985) ’’یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتا ہے اور یہ محمد (ﷺ) اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے۔‘‘ اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں۔ اور حرمت صدقہ میں آپ کے موالی کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ الزکوة‘ حدیث:(1072)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن، وصححه الحاكم والذهبي وابن الجارود) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أخبرنا بهز بن حكيم. (ح) وحدثنا محمد بن العلاء: أخبرنا أبو أسامة عن بهز بن حكيم.
قلت: وهذا إسناد حسن، كما بينته في الإرواء (791) ، مع تخريج الحديث؛ فلا داعي للإعادة.
نماز اورز کو ۃ دین کے ایسے رکن ہیں جن کا ہر دور اور ہر مذہب میں آسانی تعلیمات کے پیروکاروں کوحکم دیا گیا ہے۔ گویا یہ دونوں فریقے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں اور دین اسلام نے بھی زکوۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا۔ قرآن مجید میں نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم عموما ساتھ ساتھ ہے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر قرآن کریم نے(اقيمو الصلاة) کے ساتھ (واتوا الزكوة) کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی زکوة کی ہے۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پرنہ کرے’ سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح زکوة بھی شریعت میں اتنا ہی مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار اعراض اور فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ زکوة کی فرضیت مشہور قول کے مطابق ہجرت کےدوسرے سال ہوئی۔
لغوی اعتبار سے زکوة کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک وصاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوة میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوة کی ادا گی سےبقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادا ئیگی سے اس میں غرباء و مساکین کاحق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ جیسے کی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے۔“ (سنن ابی داود، الزكوة، باب في حقوق المال حديث: ۱۲۹۴) قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:) خذمن اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها((التوبة :103)اے پیغمبر!) ان کے بالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اوران کا تزکیہ کردیں‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکوة وصدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے اور اخلاق رزیلہ سے۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خودغرض ’ظالم متکبر’بخیل بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوۃ مال کی شدید محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ہمدردی واخوت ایثار و قربانی اورفضل واحسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور انسان جب اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (ان الحسنات يذهبن السيئات)( هود: ۱۳) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘
زکوة کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوة ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کی واقع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالی فرما دیتا ہے ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا’’صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔‘‘(صحيح مسلم،البر،باب استحباب العفووالتواضع،حديث:2588)
مذکورہ گزارشات کے بعد زکوۃ وصدقات کے کچھ فضائل و برکات بیان کیے جاتے ہیں تا کہ قاری مسئلہ کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکے حدیث قدسی ہے’’ اللہ تعالی فرماتا ہے (اے ابن آدم!) تو (میرےضرورت مند بندوں پر) خرچ کر میں (خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔“ (صحيح البخارى ، التوحيد،باب:35،حديث:7496)
اس کی بابت حضرت اسماءؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا( اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھو ،اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کرو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر بند کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہی معاملہ کرے گا۔ اس لیے جتنی توفیق ہوفراخ دلی سےخرچ کرتی رہو۔‘‘(صحيح البخارى ، الهبة، باب: 5، حديث: 2591، والزكوة، باب: 22، حديث: 1434، وصحيح مسلم، الزكوة، باب الحث على الانفاق ، حديث: 1029)
صدقہ کی بابت نبیﷺ سے پوچھا گیا’ کون ساصدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’زیاده اجر وثواب والاصدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچنے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو( اللہ کےلیے) دے دیا جائے‘درآں حالیکہ اس وقت وہ مال ( تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (وارثوں) کا ہو چکا ہو ۔(صحيح مسلم، الزكوة، باب بيان ان افضل الصدقة صدقة الصحيح الصحيح ، حديث: 1032)
ان فضائل و برکات کی پوری اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا پہلو یعنی صدقات و خیرات سے پہلو تہی اور اعراض کی سخت وعید اور اس پر عذاب شدید کی تنبیہ سامنے نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اس نے اس کی زکوة نہ دی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کی شکل میں بنادی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں خت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اپنی دونوں باچھوں سے اس کو پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا: میں تیرا بال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد نبیﷺنے سورة آل عمران کی آیت (۱۸۰) تلاوت فرمائی وہ لوگ جو اللہ کے فضل وکرم سے حاصل کردہ مال میں بخل کرتے ہیں ( زکوۃ ادانہیں کرتے) یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے (نہیں) بلکہ یہ ان کے حق میں ( انجام کے لحاظ سے) بدتر ہے۔ یہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں( اور اس کی زکوہ بھی نہیں نکالتے )قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کے ڈال دیا جائے گا۔‘‘(صحيح البخارى ، الزكوة، باب اثم مانع الزكوة حديث:1403)
حضرت ابوذرسے روایت ہے’ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ یا (فرمایا)قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا (حلف کے الفاظ صحابی کوصحیح یاد نہیں رہے۔) جس آدمی کے پاس بھی کچھ اونٹ گائیں یا بکریاں ہوں وہ ان کا حق (زکوۃ) ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن ان جانوروں سمیت لایا جائے گا یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تاز ہ ہوں گے وہ اسے اپنے پیروں سے روند یں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے جب آخرتک سب گزر جائیں گے تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا ۔“((صحيح البخارى، الزكوة، باب زكوة البقر، حديث:1460)
قرآن کریم کی یہ آیت بھی انہی لوگوں کی وعید میں نازل ہوئی ہے جو اپنے سونے چاندی اوراپنے مال ودولت میں سےزکوۃ نہیں نکالتے۔( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) (التوبۃ:9/34۔35)’’اورجولوگ سوناچاندی بطورخزانہ جمع کرتےہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجیے۔ جس دن کہ ان کی دولت کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا‘پھراس سےان کے ماتھے ‘ان کےپہلو اوران کی پیٹھیں داغی جائیں گی(اورکہاجائےگا)یہ ہے تمہاری وہ دولت جسےتم نے جوڑجوڑ کر رکھا تھا‘پس تم اپنی اس دولت اندوزی کاآج مزاچکھو۔‘‘لیکن اس وعیدسےوہ لوگ خارج ہیں جواپنے مال میں سےزکوۃ نکالتے اورصدقہ خیرات کرتےرہتےہیں۔
اس اخروی عقوبت کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوۃ کی ادائیگی سے اعراض کرتی ہے امساک باراں اور قحط سالی جیسے ابتلاء سے دوچار کر دیتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: "جو قوم زکوة سے انکار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔“ ( (الطبرانى فى الأوسط، حديث: 4577-6788، وصحيح الترغيب للألبانى:1/467)
ایک دوسری روایت میں ہے جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ باران رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔“ (سنن ابن ماجه ، باب العقوبات،حديث:4019، وحسنه الألبانى فى الصحيحة حديث:106-1/216-217)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا مطالبہ صرف ز کوٰۃ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر الله کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن مجید نے اس لیے متعدد مقامات پر زکوۃ‘‘ کی بجائے انفاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے اور زکوۃ اور دیگر صدقات دونوں کو محیط ہے۔(متقين)کی صفات میں بتایاگیا ہے (وممارزقنهم ينفقون) (البقرة:3)’’اوروہ ہمارےدیےہوئے مال میں سے انفاق (خرچ)کرتےہیں۔ ’’نیزفرمایا(يايها الذين امنوا انفقوامن طيبت ماكسبتم) (البقرة :467)’’اےایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ )کرو۔‘‘
زکوۃ وصدقات دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اولین مستحق آدمی کے درجہ بدرجہ اپنے قرابت دار ہیں ۔ قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی جس میں غریب و بے سہارا افراد کی اعانت و دست گیری شامل ہے حقوق العباد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سب سے پہلے آدمی کے والدین ہیں اور دوسرے نمبر پر اس کے دیگر قریب ترین رشتہ دار۔ اگر انسان کے پاس اہل خانہ اور والدین کی کفالت کے بعد کچھ مال بچ رہے تو اسے درجہ بدرجہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اسے شریعت میں صلہ رحمی کہتے ہیں ۔ اس سے دوگنا اجر ملے گا ایک صلہ رحمی کا اور دوسراصدقے کا۔
زکوة اس مال میں سے نکالی جائے جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلا شرکت غیرے ما لک ہو۔
مشترکہ (لمٹیڈ) کمپنیوں میں سے سب کے مجموعی مالوں میں سے بھی سب کی طرف سے زکوۃ نکالی جانی چاہے۔ (ملخص از کتاب ’’زکوٰۃ وعشر‘‘تالیف حافظ صلاح الدین یوسف، مطبوعہ دارالسلام)
بھز بن حکیم اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر چالیس اونٹوں میں جو کہ جنگل میں چرتے ہوں، ایک بنت لبون (دو سالہ مادہ) ہے اور انہیں ان کے حساب سے جدا جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص اجر و ثواب کی نیت سے دے گا، ابن العلاء نے «مؤتجرا بها» کے الفاظ کہے، تو اس کے لیے اس کا اجر و ثواب ہے اور جو (زکوٰۃ کو) روکے گا تو ہم اس سے وصول کریں گے اور آدھا مال (مزید بھی) یہ ہمارے رب تعالیٰ عزوجل کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، اس میں آل محمد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہے کہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیا جائے گا۔ (2) صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ اور آپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا۔ اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ [ان هذهِ الصدقةَ إنما هِىَ أوساخُ الناسِ‘ و إنها لاتحلُّ لمحمدٍ ولا لآلِ محمدٍ](سنن أبي داود‘ الخراج‘ حدیث:2985) ’’یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتا ہے اور یہ محمد (ﷺ) اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے۔‘‘ اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں۔ اور حرمت صدقہ میں آپ کے موالی کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ الزکوة‘ حدیث:(1072)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاویہ بن حیدہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چرنے والے اونٹوں میں چالیس (۴۰) میں ایک (۱) بنت لبون ہے، (زکاۃ بچانے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کر لیں گے، اور (زکاۃ روکنے کی سزا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: جرمانے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا، اکثر علماء کے قول کے مطابق یہی راجح مسلک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'awiyah ibn Haydah (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: For forty pasturing camels, one she-camel in her third year is to be given. The camels are not to be separated from reckoning. He who pays zakat with the intention of getting reward will be rewarded. If anyone evades zakat, we shall take half the property from him as a due from the dues of our Lord, the Exalted. There is no share in it (zakat) of the descendants of Muhammad (ﷺ).