Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: How Should One Wipe)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
165.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفر تبوک میں نبی کریم ﷺ کو وضو کروایا تو آپ ﷺ نے (اس موقع پر) موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کیا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب ثور نے یہ حدیث رجاء سے نہیں سنی۔
تشریح:
فوائد مسائل: موزوں پر مسح میں مشروع یہ ہے کہ ان کے اوپرکی جانب گیلا ہاتھ پھیرا جائے۔ صحیح احادیث کی دلالت یہی ہے اور جن میں یہ آیا ہےکہ موزوں کے نیچے بھی مسح کیا تو ان کی اسانید میں کلام ہے۔ اس لیےان میں تعارض ہے نہ تطبیق کی ضرورت جیسا کہ بعض حضرات نےجمع وتطبیق سے کام لیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: يعني أنه منقطع، وهو علة الحديث. ولذلك قال البخاري وأبو زرعة: ليس بصحيح . وضعفه أيضاً الإمام الشافعي وأبو حاتم والترمذي وابن حزم) . إسناده: حدثنا موسى بن مروان ومحمود بن خالد الدمشقي- المعنى- قالا:
ثنا الوليد- قال محمود-: أخبرنا ثور بن يزيد. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ لكن علته ما أشار بليه المؤلف من الانقطاع؛ وقد عرف الوليد بن مسلم بتدليسه تدليس التسوية، وقد صرح غيره بأن ثوراً لم يسمع هذا من رجاء، فكان الحديث منقطعاً. ثم هو مخالف لحديث آخر عن المغيرة بن شعبة: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يمسح على الخفين. وفي رواية: على ظهر الخفين. وهو حديث صحيح، كما بيناه في الكتاب الآخر (رقم 151 و 152) ؛ وذكرنا
هناك قول البخاري: إنه أصح من حديث رجاء هذا. والحديث أخرجه أحمد في المسند (4/251) : ثنا الوليد بن مسلم: ثنا ثور عن رجاء. وكذا أخرجه الترمذي (1/162) ، وابن ماجه (1/195) ، والبيهقي (1/290) من طرق عن الوليد... به؛ إلا أن ابن ماجه قال: عن وزاد كاتب المغيرة بن شعبة. فبين ما أبهم في روايات الآخرين. ثم قال الترمذي:
وهذا حديث معلول، لم يسنده عن ثور بن يزيد غير الوليد بن مسلم . قال: وسألت أبا زرعة ومحمد بن إسماعيل عن هذا الحديث؟ فقالا: ليس بصحيح؛ لأن ابن المبارك روى هذا عن ثور عن رجاء بن حيوة قال: حُدثْتُ عن كاتب المغيرة... مرسلاً عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولم يذكر فيه المغيرة . وروى ابن حزم (2/114) - بإسناده الصحيح- إلى أحمد بن حنبل قال: قال عبد الرحمن بن مهدي عن عبد اللّه بن المبارك عن ثور بن يزيد قال: حُدثْتُ عن
رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة... مرسلاً. قال ابن حزم: فصح أن ثوراً لم يسمعه من رجاء بن حيوة، وأنه مرسل لم يذكر فيه المغيرة . قلت: وإذا ضُم هذا إلى ما نقله الترمذي عن ابن المبارك؛ فحينئذ يكون الحديث منقطعاً في موضعين: بين ثور ورجاء، وبين رجاء وكاتب المغيرة. وقد روي موصولاً بين الأولين؛ فقال الدارقطني (ص 71) : حدثنا عبد الله
ابن محمد بن عبد العزيز: نا داود بن رُشيْد: نا الوليد بن مسلم عن ثور بن يزيد: نا رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة... به.
ورواه البيهقي عن الدارقطني، قال الحافظ في التلخيص (2/391) : فهذا ظاهره أن ثوراً سمعه من رجاء، فتزول العلة. ولكن رواه أحمد بن عبيد الصفار عن أحمد بن يحيى الحلواني عن داود بن رشيد فقال: عن رجاء، ولم يقل: حدثنا رجاء. فهذا اختلاف على داود، يمنع من القول بصحة وصله، مع ما تقدم في كلام الأئمة . قلت: ولو سُلم بصحة رواية الدارقطني؛ فيبقى الانقطاع في المكان الآخر الذي حكاه الترمذي عن أبي زرعة والبخاري قائماً؛ لأنه معنعن عند جميع من أخرج الحديث. وقد أعل بعلل أخرى غير هذه؛ لكنا لم نرها قادحة، فلذلك لم نتعرض لذكرها بعد هذه.
وقد ذكرها ابن القيم في التهذيب (1/124- 126) ، وأجاب عنها، ثم قال في خاتمة البحث: وبعدُ؛ فهذا حديث قد ضعفه الأئمة الكبار: البخاري وأبو زرعة والترمذي وأبو داود والشافعي، ومن المتأخرين أبو محمد بن حزم، وهو الصواب؛ لأن الأحاديث الصحيحة كلها تخالفه، وهذه العلل وإن كان بعضها غير مؤثر؛ فمنها ما هو مؤثر مانع من صحة الحديث، وقد تفرد الوليد بن مسلم بإسناده ووصله، وخالفه من هو أحفظ منه وأجل- وهو الإمام الثبت عبد الله بن المبارك- . قلت: وممن ضعفه من المتقدمين: أبو حاتم الرازي، فقال ابنه في العلل (1/54 رقم 135) : سمعت أبي يقول في حديث الوليد هذا: ليس بمحفوظ، وسائر الأحاديث عن المغيرة أصح .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفر تبوک میں نبی کریم ﷺ کو وضو کروایا تو آپ ﷺ نے (اس موقع پر) موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کیا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب ثور نے یہ حدیث رجاء سے نہیں سنی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد مسائل: موزوں پر مسح میں مشروع یہ ہے کہ ان کے اوپرکی جانب گیلا ہاتھ پھیرا جائے۔ صحیح احادیث کی دلالت یہی ہے اور جن میں یہ آیا ہےکہ موزوں کے نیچے بھی مسح کیا تو ان کی اسانید میں کلام ہے۔ اس لیےان میں تعارض ہے نہ تطبیق کی ضرورت جیسا کہ بعض حضرات نےجمع وتطبیق سے کام لیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو غزوہ تبوک میں وضو کرایا، تو آپ نے دونوں موزوں کے اوپر اور ان کے نیچے مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ثور نے یہ حدیث رجاء بن حیوۃ سے نہیں سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughirah ibn Shu’bah (RA): I poured water while the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) performed ablution in the battle of Tabuk. He wiped over the upper part of the socks and their lower part. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: I have been told that Thawr did not hear this tradition from Raja'.