باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1705.
جناب مالک نے اس حدیث کو اسی سند سے اسی کے ہم معنی روایت کیا۔ اور مزید کہا: ”(اس کے ساتھ) اس کا مشکیزہ ہے، وہ پانی پر پہنچ کر پانی پی لے گا اور جھاڑیاں کھا کر گزارہ کر لے گا۔“ اور گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» ”اسے لے لو“ کے لفظ روایت نہیں کیے اور گری پڑی چیز «لقطة» کے بارے میں فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پھر اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم جانو (یعنی اس کے مالک بن جاؤ)“ اور ”خرچ کر لینے“ کا ذکر نہیں کیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: اسے ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے ربیعہ سے اسی کے مثل روایت کیا اور انہوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا۔
تشریح:
(1) بکری جیسا ضعیف جانور جو زیادہ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتا اور درندوں وغیرہ سے دفاع نہیں کر سکتا اگر اسے قبضے میں نہ لیا جائے تو ضائع ہو جائے گا لہذا یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اسے چھوڑا جائے مگر اونٹ کا معاملہ اس سے مختلف ہے اس لیے جائز نہیں کہ انسان اس کو اپنے قبضے میں لے لے۔ الا یہ کہ اندیشہ ہو کہ فاسق یا چور ڈاکو وغیرہ اڑالے جائیں گے یا یہ از خود دشمنوں کے علاقے میں چلا جائے گا تو محفوظ کر لینا زیادہ بہتر ہے۔ بشرطیکہ ظن غالب یہ ہو کہ یہ جانور کسی مسلمان ہی کا ہے۔ والله اعلم. (2) اس روایت میں راویوں نے [خذها] اسے لے لو اور [استنفق] اس سے فائدہ اٹھاؤ کے الفاظ بیان نہیں کیے جبکہ یہ الفاظ صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ دیکھیے (صحیح البخاري، اللقطة، باب ضالة الغنم، حدیث:2428)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري وابنالجارود) .إسناده: حدثنا ابن السرح: ثنا ابن وهب: أخبرني مالك... بإسناده ومعناه.قال أبو داود: رواه الثوري وسليمان بن بلال وحماد بن سلمة عن ربيعة...مثله؛ لم يقولوا: خذها ... .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير ابن السرح، فهو على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.والحديث أخرجه مسلم (5/134) ... بإسناد المصنف ومتنه؛ إلا أنه قرن مع مالك: سفيان الثوري وعمرو بن الحارث وغيرهم.وهكذا أخرجه ابن الجارود (666) ، والبيهقي (6/189) من طريق أخرى عن ابن وهب.وحديث مالك في الموطأ (2/226) .وعنه: أخرجه البخاري (5/64) ، ومسلم أيضا، والبيهقي (6/185 و 192) .وحديث الثوري: وصله أحمد (4/117) ، والشيخان، وابن الجارود (667) .وحديث سليمان بن بلال: وصله مسلم.وحديث حماد: وصله المصنف.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
جناب مالک نے اس حدیث کو اسی سند سے اسی کے ہم معنی روایت کیا۔ اور مزید کہا: ”(اس کے ساتھ) اس کا مشکیزہ ہے، وہ پانی پر پہنچ کر پانی پی لے گا اور جھاڑیاں کھا کر گزارہ کر لے گا۔“ اور گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» ”اسے لے لو“ کے لفظ روایت نہیں کیے اور گری پڑی چیز «لقطة» کے بارے میں فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پھر اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم جانو (یعنی اس کے مالک بن جاؤ)“ اور ”خرچ کر لینے“ کا ذکر نہیں کیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: اسے ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے ربیعہ سے اسی کے مثل روایت کیا اور انہوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بکری جیسا ضعیف جانور جو زیادہ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتا اور درندوں وغیرہ سے دفاع نہیں کر سکتا اگر اسے قبضے میں نہ لیا جائے تو ضائع ہو جائے گا لہذا یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اسے چھوڑا جائے مگر اونٹ کا معاملہ اس سے مختلف ہے اس لیے جائز نہیں کہ انسان اس کو اپنے قبضے میں لے لے۔ الا یہ کہ اندیشہ ہو کہ فاسق یا چور ڈاکو وغیرہ اڑالے جائیں گے یا یہ از خود دشمنوں کے علاقے میں چلا جائے گا تو محفوظ کر لینا زیادہ بہتر ہے۔ بشرطیکہ ظن غالب یہ ہو کہ یہ جانور کسی مسلمان ہی کا ہے۔ والله اعلم. (2) اس روایت میں راویوں نے [خذها] اسے لے لو اور [استنفق] اس سے فائدہ اٹھاؤ کے الفاظ بیان نہیں کیے جبکہ یہ الفاظ صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ دیکھیے (صحیح البخاري، اللقطة، باب ضالة الغنم، حدیث:2428)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: ”وہ اپنی سیرابی کے لیے پانی پر آ جاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے۔“ اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» (اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہٰ کے سلسلے میں فرمایا: ”ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کر لو۔“ اس میں «استنفق» کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The above mentioned tradition has also been transmitted by Malik through a different chain of narrators to the same effect. This version adds: They have their stomachs: They can go down to water and eat trees. He did not say about the stray sheep: take it. About a find he said : Make it known for a year; if it’s owner comes, (give it to him), otherwise use it yourself. This version has not the word: “spend it”. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has been narrated by al-Thawri, Sulaiman bin Bilal, and Hammad bin Salamah on the authority of Rabi ‘ ah in a similar manner. They did not mention the word “take it”.