باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1707.
سیدنا زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا۔ اور ربیعہ کی حدیث کے مانند ذکر کیا۔ (سابقہ حدیث: 1704) کہا کہ آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پس اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے سپرد کر دو۔ نہیں تو اس کا بندھن اور برتن خوب یاد کر لو اور اسے اپنے مال میں شامل کر لو۔ پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کو دے دو۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده جيد) . إسناده: حدثنا أحمد بن حفص: حدثني أبي: حدثني إبراهيم بن طَهْمان عن عَباد بن إسحاق عن عبد الله بن يزيد عن أبيه يزيد مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجُهَنِي أنه قال...
قلت: وهذا إسناد جيد، رجاله رجال الصحيح ؛ غير عبد الله بن يزيد، وهوصدوق.والحديث أخرجه البيهقي (6/186) من طريق أخرى عن أحمد بن حفص بن عبد الله... به.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
سیدنا زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا۔ اور ربیعہ کی حدیث کے مانند ذکر کیا۔ (سابقہ حدیث: 1704) کہا کہ آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پس اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے سپرد کر دو۔ نہیں تو اس کا بندھن اور برتن خوب یاد کر لو اور اسے اپنے مال میں شامل کر لو۔ پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کو دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے (لقطے کے متعلق) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا: لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو، اور اگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو، پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کو دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by Zaid bin Khalid al-Juhani through a different chain of narrators. This version has: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was asked about a find. He replied: Make the matter known for a year; if its owner comes, give it to him, otherwise note its string and its container and have it along with your property. If its owner comes, deliver it to him.