باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1708.
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی کے ہم معنی مروی ہے اس میں اضافہ ہے: ”اگر اس کا متلاشی آ جائے اور اس کی تھیلی (یا برتن) اور اس کی گنتی (وغیرہ علامات) بتا دے تو وہ چیز اس کے سپرد کر دو۔“
تشریح:
امام ابوداؤد کا یہ فرمانا کہ زید بن خالد جہنی کی اس روایت میں حماد بن سلمہ کا مذکورہ بالا اضافہ محفوظ نہیں وہم ہے، سفیان ثوری اور زید بن ابی انیسہ اس اضافے میں ان کے متابع ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں وارد ہے۔ (منذری) (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:1733) امام بخاری نے حضرت زید بن خالد کی روایت انہی الفاظ کے ساتھ دوسری سند سے بیان فرمائی ہے۔ (کتاب في اللقطة: باب إذا لم یوجد صاحب اللقطة بعد سنة فھي لمن وجدھا) علاوہ ازیں اسی معنی پر مشتمل الفاظ ابوداؤد کی کتاب اللقطہ میں حضرت ابی بن کعب سے مروی روایت میں موجود اور محفوظ ہیں۔ حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده معلق حسن. وقد وصله البيهقي) .إسناده: علقه المصنف بقوله: وقال حماد أيضا: عن عبيد الله بن عمر عن عمرو بن شعيب عن أبيه... .قال أبو داود: وهذه الزيادة التي زاد حماد بن سلمة في حديث سلمة بن كُهَيْل ويحيى بن سعيد وعبيد الله وربيعة: إن جاء صاحبها، فعرف عفاصها ووكاءها؛ فادفعها إليه ؛ ليست محفوظة: فعرف عفاصها ووكاءها ... !! كذا قال! ورده الحافظ في التلخيص ، فقال (3/76) : وأشار إلى أن حماد بن سلمة تفرد بها، وليس كذلك؛ بل في رواية مسلم:أن الثوري وزيد بن أبي أنيسة وافقا حماداً. ورواها البخاري أيضا في حديث زيدابن خالد .ونحوه قال البيهقي (6/197) .والحديث وصله البيهقي (6/197) من طريق علي بن عثمان: ثنا حماد...به في حديث يأتي عند المصنف قريباً نحوه؛ وفيه:ثم سأله عن اللقطة؟ فقال: اعْرِفْ عددها ووعاءها وعفاصها، وعَرِّفْها عاماً، فإن جاء صاحبها، فعرفعددها وعفاصها؛ فادفعها إليه؛ وإلا فهي لك .وإسناده حسن.ويشهد له حديث أُبَي المتقدم (1494) ، فقد توبع حماد فيه على هذه الزيادة،فقال مسلم (5/139) : وفي حديث سفيان وزيد بن أبي أنيسة وحماد بن سلمة: فإن جاء أحد يخبرك بعددها... فذكرها.وأخرجه عبد الرزاق أضا (18615) ، ومن طريقه ابن الجارود (667) ،وصححها الترمذي (1374) عن سفيان.ورواها سفيان أيضا في حديث زيد بن خالد المتقدم (1495) ... بنحوها:أخرجه البخاري (5/71) .وصرح الحافظ (5/59) بتصحيح هذه الزيادة، وَرَدَّ على من ضعفها بنحو ماسبق عنه في التلخيص .
قلت: حديث صحيح. وصله الطبراني) .إسناده: وصله الطبراني في الكبير ، كما في المجمع (4/168) ، وقال: عقبة: مستور .
قلت: وصله الدارمي والطحاوي والبيهقي بإسناد صحيح عنه) .إسناده: وصله الدارمي (2/265) ، والطحاوي (2/276) ، والبيهقي (6/187)من طريق عمرو بن شعيب عن عمرو وعاصم ابني سفيان بن عبد الله بن ربيعةالثقفي:أن سفيان بن عبد الله وجد عَيْبَةً، فأتى بها عُمَرَ بنَ الخطاب، فقال: عَرَّفْها سنة؛ فإن عُرِفَتْ فذاك؛ وإلا فهي لك. فلم تُعْرَفْ، فلقيه بها في العام المُقْبِلِ في الموسم، فذكرها له، فقال عمر: هي لك؛ فإن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أمرنا بذلك. قال:لا حاجة لي بها! فقبضها عمر، فجعلها في بيت المال.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات. غير عمرو بن سفيان، فقد وثقه ابن حبان، ولم يرو عنه غير عمرو بن شعيب.بخلاف أخيه عاصم، فقد روى عنه جمع آخر من الثقات، وهما من رجال التهذيب .وكذلك أبوهما سفيان، وهو صحابي، وكان عامل عمر على الطائف. فالعجب من ابن التركماني؛ كيف قال فيهم ثلاثتهم: لم أقف على حالهم ؟!
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی کے ہم معنی مروی ہے اس میں اضافہ ہے: ”اگر اس کا متلاشی آ جائے اور اس کی تھیلی (یا برتن) اور اس کی گنتی (وغیرہ علامات) بتا دے تو وہ چیز اس کے سپرد کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
امام ابوداؤد کا یہ فرمانا کہ زید بن خالد جہنی کی اس روایت میں حماد بن سلمہ کا مذکورہ بالا اضافہ محفوظ نہیں وہم ہے، سفیان ثوری اور زید بن ابی انیسہ اس اضافے میں ان کے متابع ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں وارد ہے۔ (منذری) (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:1733) امام بخاری نے حضرت زید بن خالد کی روایت انہی الفاظ کے ساتھ دوسری سند سے بیان فرمائی ہے۔ (کتاب في اللقطة: باب إذا لم یوجد صاحب اللقطة بعد سنة فھي لمن وجدھا) علاوہ ازیں اسی معنی پر مشتمل الفاظ ابوداؤد کی کتاب اللقطہ میں حضرت ابی بن کعب سے مروی روایت میں موجود اور محفوظ ہیں۔ حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: ”اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کو دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The above mentioned tradition has also been transmitted by Yahya bin Sa’id and Rabi’ah through the chain of narrators mentioned by Qutaibah to the same effect. This version adds; if its seeker comes, and recognizes its container and its number, then give it to him.