باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1709.
سیدنا عیاض بن حمار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے چاہیئے کہ ایک یا دو عادل گواہ بنا لے۔ اور چھپائے نہیں اور نہ غائب کرے، پھر اگر اس کے مالک کو پائے تو اسے لوٹا دے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جسے چاہتا ہے عنایت فرما دیتا ہے۔“
تشریح:
گواہ بنانا نہ تو واجب ہے اور نہ ہر وقت ممکن ہی۔ لیکن یہ انتہائی پسندیدہ صورت ہے تاکہ انسان شیطانی اکساہٹ سے محفوظ ہو جائے اور اس کے دل میں اس کے مالک بن جانے کا وسوسہ پیدا نہ ہو۔ اس کے ذریعے سے کئی دوسری قباحتوں سے بھی بچا جاسکتا ہے جیسے اس کے ورثاء اس کو ادا کرنے سے انکار نہ کر سکیں یا کوئی شخص مال کی مقدار کے بارے میں اس پر تہمت نہ لگا سکے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وصححه ابن الجارود وابن حبان (4874) ) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا خالد- يعني: الطَّحَان-. (ح) وثنا موسى بن إسماعيل: ثنا وُهَيْب- المعنى- عن خالد الحَذَّاء عن أبي العلاء عن مُطَرف- يعني: ابن عبد الله- عن عياض بن حمار.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ ولم يخرجاه.والحديث أخرجه البيهقي (6/192) من طريق أخرى عن مسدد... به.وأخرجه هو (6/187) ، وأحمد (4/161 و 266) ، وابن ماجه (2/102) ،والطحاوي (2/275) ، وابن الجارود (671) ، وابن حبان (1169) من طرق عن خالد الحذاء... به.وتابعه أيوب عن أبي العلاء... به مختصراً: أخرجه الطحاوي.وخالفهما سعيد الجرَيْرِيَ فقال: عن أبي العلاء عن مُطَرف عن أبي هريرة...به: أخرجه الحاكم (2/64) من طريق حماد عنه، وقال: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!وأظنه وهماً من حماد- وهو ابن سلمة-؛ جعله من (مسند أبي هريرة) . والله أعلم.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
سیدنا عیاض بن حمار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے چاہیئے کہ ایک یا دو عادل گواہ بنا لے۔ اور چھپائے نہیں اور نہ غائب کرے، پھر اگر اس کے مالک کو پائے تو اسے لوٹا دے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جسے چاہتا ہے عنایت فرما دیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
گواہ بنانا نہ تو واجب ہے اور نہ ہر وقت ممکن ہی۔ لیکن یہ انتہائی پسندیدہ صورت ہے تاکہ انسان شیطانی اکساہٹ سے محفوظ ہو جائے اور اس کے دل میں اس کے مالک بن جانے کا وسوسہ پیدا نہ ہو۔ اس کے ذریعے سے کئی دوسری قباحتوں سے بھی بچا جاسکتا ہے جیسے اس کے ورثاء اس کو ادا کرنے سے انکار نہ کر سکیں یا کوئی شخص مال کی مقدار کے بارے میں اس پر تہمت نہ لگا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عیاض بن حمار ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں آگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہو جائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مر جائے اوراس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Iyad ibn Himar: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: He who finds something should call one or two trusty persons as witnesses and not conceal it or cover it up; then if he finds its owner he should return it to him, otherwise it is Allah's property which He gives to whom He will.