Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Praying (All) The Prayers With One Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
171.
جناب عمرو بن عامر بَجَلِیّ یعنی ابو اسد محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک ؓ سے وضو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، جبکہ ہم ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے۔
تشریح:
توضیح: اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ہر نماز کےلیے تازہ وضو کیا کرتے تھے تو یہ آپ کا غالب معمول تھا ورنہ بعض مواقع پر آپ نے بھی ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھی ہیں جیسا کہ اگلی روایت سے بھی واضح ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه البخاري في صحيحه . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) .
إسناده: حدثنا محمد بن عيسى: ثنا شَرِيكٌ عن عمرو بن عامر البجلي- قال محمد: هو أبو أسد بن عمرو-. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات: غير أن شريكاً- وهو ابن عبد الله القاضي- كان سيئ الحفظ؛ لكنه لم يتفرد به كما يأتي فدل ذلك على أنه فد حفظ؛ فالحديث صحيح. والحديث أخرجه ابن ماجه (1/183) ، وأحمد (3/154) عن شريك... به.
وتابعه سفيان الثوري: عند البخاري (1/252) ، والترمذي (1/88) - وقال: حديث حسن صحيح -، والدارمي (1/183) ، وأحمد أيضا (3/122 و 123) ؛ وزاد في آخره: ما لم نحدث. وشعبة: عند النسائي (1/32) ، والطحاوي (1/26) ، وأحمد (3/190 و 260) ؛ وفيه الزيادة.وإسناده صحيح على شرط الشيخين. وهو عند الطيالسي (رقم 2117) ؛ دون قوله: وكنا نصلّي... إلخ. وللحديث طريق أخرى عند الترمذي (1/86) . من طريق محمد بن إسحاق عن حميد عن أنس. قلت: وسنده ضعيف؛ لعنعنة ابن إسحاق، ولأن شيخ الترمذي فيه- محمد ابن خميد الرازي- ضعيف. فالاعتماد على الطريق الأولى. (تنبيه) : عمرو بن عامر البجلي أبو أسد بن عمرو؛ أورده المِزي في التهذيب تمييزاً بعد ترجمة عمرو بن عامر الأنصاري الذي أشار إلى أنه من رجال الستة! وتبعه على ذلك الحافظ في التهذيب ، و التقريب ! وقد وهما؛ فإنه من رجال الصنف كما ترى، وأشارا بذلك إلى أن البجلي غير الأنصاري، وذكرا في ترجمة هذا الأنصاري أنه روى عن أنس، وعنه جماعة فيهم شريك، ثمّ لم يذكرا في ترجمة البجلي ذلك! بل قال المزي فيها وذكر الآجري عن أبي داود: الذي يروي عن أنس: هو والد أسد بن عمرو ؛ وكذا قال ابن عساكر في الأطراف في الرواة عن اْنس: عمرو بن عامر الأنصاري والد أسد بن عمرو ؛ فكأًنه تبع في ذلك أبا داود، وذلك وهم؛ فإن
والد أسد بجلي؛ وهو متأخر عن طبقة الأنصاري. والله أعلم ! لكن الحافظ تعقبه في تهذيب التهذيب بقوله: قلت: مثل أبي داود لا يرد قوله بلا دليل . قلت: ويؤيد ما ذهب إليه المصنف رحمه الله: أن شريكاً- في رواية أحمد عنه-قال: عمرو بن عامر الأنصاري. وفي رواية المصنف: عمرو بن عامر البجلي. فدل على أنهما واحد، ويبعد جدّاً أن يكونا اثنين، يروي شريك عن كل منهما هذا الحديث الواحد! والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عمرو بن عامر بَجَلِیّ یعنی ابو اسد محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک ؓ سے وضو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، جبکہ ہم ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
توضیح: اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ہر نماز کےلیے تازہ وضو کیا کرتے تھے تو یہ آپ کا غالب معمول تھا ورنہ بعض مواقع پر آپ نے بھی ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھی ہیں جیسا کہ اگلی روایت سے بھی واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن عامر بجلی (محمد بن عیسیٰ کہتے ہیں: عمرو بن عامر بجلی ابواسد بن عمرو ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے وضو کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور ہم لوگ ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کیا کرتے تھے، تو یہ آپ کا غالب معمول تھا، ورنہ بعض مواقع پر آپ نے بھی ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھی ہیں، جیسا کہ اگلی روایت حدیث ۱۷۲سے بھی واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Asad b. ‘Amr said: I asked Anas (RA) b. Malik about ablution. He replied: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) performed ablution for each prayer and we offered (many) prayers with the same ablution.