باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1715.
بلال بن یحییٰ عبسی سیدنا علی ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہیں ایک دینار ملا، تو انہوں نے اس سے آٹا خریدا، آٹے والے نے سیدنا علی ؓ کو پہچان لیا تو اس نے دینار ان کو واپس کر دیا۔ تو سیدنا علی ؓ نے وہ لے لیا اور اس میں سے دو قیراط کاٹ کر ان کا گوشت خریدا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح .إسناده: حدثنا الهيثم بن خالد الجهَنِيُّ: ثنا وكيع عن سعد بن أوس عن بلال ابن يحيى العَبْسِي عن علي.
قلت: وهذا إسناد صحيح عندي؛ لأن رجاله كلهم ثقات معروفون؛ غير بلال ابن يحيى العبسي؛ وقد قال ابن معين: ليس به بأس .وصحح له الترمذي. وذكره ابن حبان في الثقات . وأعله المنذري بما لايقدح، فقال في مختصره (2/271) : بلال بن يحيى العبسي، روى عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مرسل-، وعن عمر بن الخطاب، وهو مشهور بالرواية عن حذيفة، وقيل فيه: عنه: بلغني عن حذيفة، وفي سماعه من علي نظر !
قلت: إن صح أنه لم يسمع من حذيفة؛ فليس يلزم منه أنه لم يسمع من علي؛ لأنه متأخر الوفاة عنه، فقد توفي حذيفة في أول خلافة علي، وتوفي علي سنة أربعين، فبين وفاتيهما نحو خمس سنين.على أن الترمذي قد صحح حديثه عن حذيفة، فمعتقده أنه سمع منه. والله أعلم. وقد غمز البيهقي من صحة الحديث، كما يأتي مع الجواب عنه أن شاء الله تعالى.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
بلال بن یحییٰ عبسی سیدنا علی ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہیں ایک دینار ملا، تو انہوں نے اس سے آٹا خریدا، آٹے والے نے سیدنا علی ؓ کو پہچان لیا تو اس نے دینار ان کو واپس کر دیا۔ تو سیدنا علی ؓ نے وہ لے لیا اور اس میں سے دو قیراط کاٹ کر ان کا گوشت خریدا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ انہیں ایک دینار پڑا ملا، جس سے انہوں نے آٹا خریدا، آٹے والے نے انہیں پہچان لیا، اور دینار واپس کر دیا تو علی ؓ نے اسے واپس لے لیا اور اسے بھنا کر اس میں سے دو قیراط۱؎ کا گوشت خریدا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: قیراط: دینار کا بیسواں حصہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) ibn Abu Talib: Bilal ibn Yahya al-Absi said: Ali found a dinar and purchased some flour with it. The seller of the flour recognised him and returned the dinar to him. Ali took it, deducted two qirat (carat) from it, and purchased meat with it.