باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1718.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”گمشدہ اونٹ پکڑنے والا اگر چھپا لے تو اس پر جرمانہ ہے اور (مزید) اس کے ساتھ اس کا مثل بھی۔“
تشریح:
(1) گمشدہ قیمتی چیز اٹھا کر چھپا لینا حرام اور گناہ کا کام ہے۔ (2) اس حدیث کی روشنی میں ایسے مجرم پر دوگنا جرمانہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا مخلد بن خالد: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن عمرو بن مسلم عن عكرمة- أحسبه- عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ على ضعف في عمرو بن مسلم- وهو الجَنَدِيُ-، فهو إسناد لا بأس به؛ لولا أن عكرمة- وهو من رجال البخاري- لم يَقْطَعْ بذكر أبي هريرة فيه. ولذلك قال المنذري في مختصره : ولم يجزم عكرمة بسماعه من أبي هريره، فهو مرسل .
قلت: لكنه يتقوى بالشاهد الذي سأذكره. والحديث أخرجه عبد الرزاق في مصنفه (18599) ، والعقيلي (3/259-260) ، والبيهقي (6/191) من طريق المؤلف.ويشهد له حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده في ضالة الغنم: لك أو لأخيك أو للذئب . قال: فمن أخذها من مرتعها؛ عوقب وغُرِّمَ مثلَ ثمنها . وفي رواية: فيها ثمنها مرتن، وضَرْبُ نَكَال .أخرجه أحمد (2/180 و 186) بسندٍ حسن، وأصله تقدم عند المصنف(1504) ؛ ولكنه لم يسق هذه القطعة منه.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔