باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1719.
سیدنا عبدالرحٰمن بن عثمان تیمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجیوں کی گری پڑی چیزیں اُٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ احمد نے روایت کیا کہ ابن وہب نے کہا: ”حاجی کی چیز پڑی رہنے دی جائے حتیٰ کہ اس کا مالک اسے پالے۔“ ابن موہب نے (اپنی سند میں) «عن عمرو» کہا ہے۔ («أخبرني عمرو» نہیں کہا)۔
تشریح:
راجح یہی ہے کہ حاجیوں کی گری پڑی اشیاء نہ اٹھائی جائیں تاکہ اس شہر کی حرمت اپنے وسیع تر معانی میں قائم اور ثابت رہے تاہم اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہوتو رخصت ہے کہ اٹھا لی جائے۔ جیسے کہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس سے مرفوع احادیث میں آیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث:2433 2434 و صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:1724) اور خوب کثرت سے اعلان کرنا چاہیے۔ ممکن ہے یہ چیز کسی آفاقی حاجی کی ہو۔ نہ معلوم اسے دوبارہ یہاں آنا میسر بھی آتاہے یا نہیں۔ علامہ ابن القیم بھی یہی فرماتے ہیں کہ چونکہ حجاج بڑی جلدی اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے ہیں اس لیے پورے سال تک اس کا اعلان ممکن نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ چیز نہ اٹھائی جائے اور اگر اٹھائی جائے تو بہت جلد اور بار بار اعلان کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه ،وصححه ابن حبان والحاكم أيضا، ووافقه الذهبي) .إسناده: حدثنا يزيد بن خالد بن مَوْهَبٍ وأحمد بن صالح قالا: ثنا ابن وهب: أخبرني عمرو عن بُكَيْرٍ عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.والحديث أخرجه مسلم (5/137) ، والبيهقي (6/199) ، وأحمد (3/499)من طرق أخرى عن ابن وهب... به؛ دون قوله: قال ابن وهب...وكذلك أخرجه ابن حبان (1172) ،والحاكم (2/64- 65) وقال: صحيح الإسناد .
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
سیدنا عبدالرحٰمن بن عثمان تیمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجیوں کی گری پڑی چیزیں اُٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ احمد نے روایت کیا کہ ابن وہب نے کہا: ”حاجی کی چیز پڑی رہنے دی جائے حتیٰ کہ اس کا مالک اسے پالے۔“ ابن موہب نے (اپنی سند میں) «عن عمرو» کہا ہے۔ («أخبرني عمرو» نہیں کہا)۔
حدیث حاشیہ:
راجح یہی ہے کہ حاجیوں کی گری پڑی اشیاء نہ اٹھائی جائیں تاکہ اس شہر کی حرمت اپنے وسیع تر معانی میں قائم اور ثابت رہے تاہم اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہوتو رخصت ہے کہ اٹھا لی جائے۔ جیسے کہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس سے مرفوع احادیث میں آیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث:2433 2434 و صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:1724) اور خوب کثرت سے اعلان کرنا چاہیے۔ ممکن ہے یہ چیز کسی آفاقی حاجی کی ہو۔ نہ معلوم اسے دوبارہ یہاں آنا میسر بھی آتاہے یا نہیں۔ علامہ ابن القیم بھی یہی فرماتے ہیں کہ چونکہ حجاج بڑی جلدی اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے ہیں اس لیے پورے سال تک اس کا اعلان ممکن نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ چیز نہ اٹھائی جائے اور اگر اٹھائی جائے تو بہت جلد اور بار بار اعلان کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔ احمد کہتے ہیں: ابن وہب نے کہا: یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے، ابن موہب نے «أخبرني عمرو» کے بجائے «عن عمرو» کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd al-Rahman bin `Uthman al-Taime said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prohibited taking the find of pilgrims. Ibn Wahb said: One should leave the find of a pilgrim till its owner finds it.