باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1720.
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ (میں اپنے والد) جریر (جریر بن عبداللہ البجلی ؓ) کے ساتھ بو (ازیج) مقام ازیج میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا۔ اور ان میں ایک گائے ان کی نہیں تھی۔ سیدنا جریر ؓ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: بس گایوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کس کی ہے۔ تو سیدنا جریر ؓ نے کہا: اسے علیحدہ کر دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے: ”گمشدہ چیز کو کوئی «ضال» گمراہ انسان ہی لیتا ہے۔“
تشریح:
(1) گمشدہ چیز اپنے قبضے میں لےکر چھپا لینے والا یا مالک بن بیٹھنے والا ضال اور گمراہ انسان ہے جبکہ اعلان کرنے والا ایسا نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ حضرت جریر کا خیال ہو کہ گائے اونٹ کی طرح ہے یہ جانور کھاپی کر گزارہ کر سکتا ہے اور چھوٹے موٹے درندے بھی اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تواس لیے اس کا چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ اس کامالک اس کو خود ہی ڈھونڈ لے گا۔ (2) بوازیج الانبار بغداد کی بالائی جانب ایک علاقہ ہے جسے حضرت جریر نے فتح کیا تھا اور یہاں ان کے موالی رہتے تھے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، أعني: المرفوع منه) .إسناده: حدثنا عمرو بن عون: أخبرنا خالد عن أبي حَيَّان التيمي عن النذرابن جرير.
قلت: وهذا إسناد ظاهره الصحة؛ فإن رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ إلا أن له عِلةً خفية، وهي أن جماعة من الثقات خالفوا خالداً- وهو ابن عبد الله الطحان-، فقالوا: عن أبي حيان التيمي: ثنا الضحاك- خال ابن المنذر بن جرير-عن المنذر بن جرير... به.فأدخلوا بينهما الضحاك- وهو ابن المنذر بن جرير البَجَلِي-، وهو علة الإسناد؛فإنه مجهول لا يعرف.وقد خرجت الحديث من طرق الجماعة المشار إليهم في الإرواء (1563) ،فأغنى عن الإعادة.لكن للحديث شاهد من حديث زبد بن خالد الجهني... مرفوعاً بلفظ: من آوى ضالَّةً؛ فهو ضال؛ ما لم يُعَرِّفها .أخرجه مسلم (5/137) ، والحاكم (2/64) ، والبيهقي (6/191) ، وأحمد(4/117) ، وقال الحاكم: صحيح الإسناد ولم يخرجاه ! ووافقه الذهبي!
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ (میں اپنے والد) جریر (جریر بن عبداللہ البجلی ؓ) کے ساتھ بو (ازیج) مقام ازیج میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا۔ اور ان میں ایک گائے ان کی نہیں تھی۔ سیدنا جریر ؓ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: بس گایوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کس کی ہے۔ تو سیدنا جریر ؓ نے کہا: اسے علیحدہ کر دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے: ”گمشدہ چیز کو کوئی «ضال» گمراہ انسان ہی لیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) گمشدہ چیز اپنے قبضے میں لےکر چھپا لینے والا یا مالک بن بیٹھنے والا ضال اور گمراہ انسان ہے جبکہ اعلان کرنے والا ایسا نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ حضرت جریر کا خیال ہو کہ گائے اونٹ کی طرح ہے یہ جانور کھاپی کر گزارہ کر سکتا ہے اور چھوٹے موٹے درندے بھی اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تواس لیے اس کا چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ اس کامالک اس کو خود ہی ڈھونڈ لے گا۔ (2) بوازیج الانبار بغداد کی بالائی جانب ایک علاقہ ہے جسے حضرت جریر نے فتح کیا تھا اور یہاں ان کے موالی رہتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
منذر بن جریر کہتے ہیں میں جریر کے ساتھ بوازیج۱؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا: یہ کیسی گائے ہے؟ اس نے کہا: یہ گایوں میں آ کر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا: اسے نکالو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”گمشدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے۔“۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: ’’بوازيج‘‘: عراق میں) نہر دجلہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ کسی گم شدہ جانور کو اپنا بنا لینے کے لئے اس کو پکڑ لے تو وہ گمراہ ہے، رہا وہ شخص جو اسے اس لئے پکڑے تا کہ اس کی پہچان کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: «من آوى ضالةً فهو ضالٌّ ما لم يعرفها» اور نسائی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: «من أخذ لقطةً فهو ضالٌّ ما لم يعرفها» جو آدمی گم شدہ چیز اپنے پاس رکھے وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mundhir ibn Jarir: I accompanied Jarir at Bawazij. The shepherd brought the cows. Among them there was a cow that was not one of them. Jarir asked him: What is this? He replied: This was mixed with the cows and we do not know to whom it belongs. Jarir said: Take it out. I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: No one mixes a stray animal (with his animals) but a man who strays from right path.