Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding A Woman Who Performs Hajj Without A Mahram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1724.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کیلئے حلال نہیں کہ ایک دن اور رات کا سفر کرے۔“ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا۔ (یعنی اس کا محرم کے بغیر سفر کرنا حرام ہے) نفیلی نے «عن مالك» کی بجائے تحدیث کی صراحت کرے ہوئے «حدثنا مالك» کہا ہے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ نفیلی اور قعنبی نے (سند میں سعید بن ابی سعید کے بعد) «عن أبيه» نہیں کہا۔ نیز ابن وہب اور عثمان بن عمر بھی جناب مالک سے ایسے ہی روایت کرتے ہیں جیسے کہ قعنبی نے کہا ہے۔ («عن أبيه» کے بغیر)۔
تشریح:
جناب سعید مقبری کو اپنے والد کے علاوہ حضرت ابوہریرہ سے بھی سماع حاصل ہے۔ اس لیے دونوں ہی سندیں صحیح ہیں۔ (نووی)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة والنفيلي عن مالك. (ح) وثنا الحسن بن علي: ثنا بِشْرُ بن عمر: حدثني مالك عن سعيد بن أبي سعيد- قال الحسن في حديثه: عن أبيه. ثم اتفقوا- عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال...قال أبو داود: ولم يذكر القعنبي والنفيلي: عن أبيه. رواه ابن وهب وعثمان ابن عمر عن مالك كما قال القعنبي .
قلت: وهذا إسناد صحيح أيضا كالذي قبله؛ إلا أن الرواة اختلفوا فيه على مالك، فقال أكثرهم: عنه عن سعيد عن أبي هريرة. وقال الحسن بن علي وهو الحُلْواني-: عنه عن سعيد عن أبيه عن أبي هريرة، فزاد في الإسناد: عن أبيه.وهي زيادة من ثقة؛ وقد تابعه عليها الليث بن سعد في الرواية الأولى.وتابعه ابن أبي ذئب أيضا: عند البخاري (2/566- خطيب) ، ومسلم(4/103) ، وابن ماجه (2/212) ، وأحمد (2/250 و 437 و 445) .وتابعه أيضا يحيى بن أبي كثير، كما علقه البخاري، ووصله أحمد(2/423) .وقد رجح الحافظ روايتهم، لأنها زيادة، وهي مقبولة من الثقة، فكيف وهم جمع؟والحديث عند مالك في الموطأ (3/144- 145) ... مثل رواية الأكثر عنه.وكذلك رواه مسلم.ورواه الترمذي (1170) - بإسناد المصنف الثاني-: الحسن بن علي: ثنا بشرابن عمر... به، وقال حسن صحيح .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کیلئے حلال نہیں کہ ایک دن اور رات کا سفر کرے۔“ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا۔ (یعنی اس کا محرم کے بغیر سفر کرنا حرام ہے) نفیلی نے «عن مالك» کی بجائے تحدیث کی صراحت کرے ہوئے «حدثنا مالك» کہا ہے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ نفیلی اور قعنبی نے (سند میں سعید بن ابی سعید کے بعد) «عن أبيه» نہیں کہا۔ نیز ابن وہب اور عثمان بن عمر بھی جناب مالک سے ایسے ہی روایت کرتے ہیں جیسے کہ قعنبی نے کہا ہے۔ («عن أبيه» کے بغیر)۔
حدیث حاشیہ:
جناب سعید مقبری کو اپنے والد کے علاوہ حضرت ابوہریرہ سے بھی سماع حاصل ہے۔ اس لیے دونوں ہی سندیں صحیح ہیں۔ (نووی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر کرے۔“ پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر گزری۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Prophet (ﷺ) as saying: A woman who believes in Allah and the last Day must not make a journey of a day and a night. He then narrated the rest of the tradition to the same effect (as above). The narrator al-Nufaili said: Malik narrated us. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The narrators al-Nufail and al-Qa’nabi did not mention the words “from his father”. Ibn Wahb and ‘Uthman bin ‘Umar narrated from Malik the same words as narrated by al-Qa’nabi (i.e. omitted the words “from his father”).