Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding A Woman Who Performs Hajj Without A Mahram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1725.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند ذکر کیا، مگر «بريدا» کا لفظ کہا۔ (یعنی کسی مسلمان عورت کو اپنے محرم کے بغیر ایک برید کا سفر بھی حلال نہیں)۔
تشریح:
یہ برید والی روایت بعض ائمہ کے نزدیک شاذ ہے۔ اور ایک [برید] چار فرسخ کا اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ (برید بارہ میل کا ہوا) جو علماء کے نزدیک آدھے دن کی مسافت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ان ائمہ کے نزدیک عورت کا بغیر محرم کے مختصر سفر کرنا جائز ہو گا جب کہ دوسرے ائمہ کے نزدیک مطلقاً عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا ناجائز ہو گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: ورجال إسناده ثقات. ولكلنه بهذا اللفظ شاذ، والمحفوظ بلفظ: يوم وليلة ؛ كما أخرجه الشيخان وغيرهما) .إسناده: حدثنا يوسف بن موسى عن جرير.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير أن جريراً- وهو:ابن عبد الحميد-، قال البيهقي: نُسِب في اخر عمره إلى سوء الحفظ .وقد خولف في إسناده ومتنه؛ فقال بشر بن المفضل: ثنا سهيل بن أبي صالح عن أبي هريرة... به؛ مرفوعاً بلفظ: لا يحل لامرأة أن تسافر ثلاثاً إلا ومعها ذو محرم منها .أخرجه مسلم (4/103) وتابعه حمّاد بن سلمة عن سهيل... به.أخرجه أحمد (2/347) : حدثنا عفان: حدثنا حماد بن سلمة...وهذا هو المحفوظ بلفظ: يوم .. بدل: بريد .وقد خولف سهيل أيضاً في إسناده ومتنه؛ كما بينه المؤلف في كتابه. وتجدالروايات بذلك في صحيحه (1516- 1518) ؛ فلا نطيل الكلام بذكرها هنا.والحديث أخرجه الحاكم (1/442) من طريق أخرى عن جرير... به. وقال: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند ذکر کیا، مگر «بريدا» کا لفظ کہا۔ (یعنی کسی مسلمان عورت کو اپنے محرم کے بغیر ایک برید کا سفر بھی حلال نہیں)۔
حدیث حاشیہ:
یہ برید والی روایت بعض ائمہ کے نزدیک شاذ ہے۔ اور ایک [برید] چار فرسخ کا اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ (برید بارہ میل کا ہوا) جو علماء کے نزدیک آدھے دن کی مسافت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ان ائمہ کے نزدیک عورت کا بغیر محرم کے مختصر سفر کرنا جائز ہو گا جب کہ دوسرے ائمہ کے نزدیک مطلقاً عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا ناجائز ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر انہوں نے اسی جیسی روایت ذکر کی البتہ اس میں (دن رات کی مسافت کے بجائے) «بريدا» کہا ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: «برید»: چار فرسخ کا ہوتا ہے، اور ایک فرسخ تین میل کا، اس طرح «برید» بارہ میل کا ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: He then reported the same tradition as mentioned above but he mentioned (in this version) the word “mail post”.