Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Hadi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1749.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال قربانی کے جانور (ساتھ) لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی ان قربانیوں میں ایک اونٹ وہ بھی تھا جو ابوجہل کا تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا چھلا پڑا ہوا تھا۔ ابن منہال نے کہا: سونے کا چھلا پڑا ہوا تھا۔ نفیلی نے اضافہ کیا کہ آپ اسے مشرکوں کو جلانے کے لیے لے گئے تھے۔ (کہ ان کے سردار کا اونٹ محمد ﷺ کے قبضے میں ہے۔)
تشریح:
(1) جانوروں کی نکیل وغیرہ میں تھوڑی بہت چاندی کا استعمال مباح ہے۔ (2) اسلام اور مسلمانوں کا اظہار وغلبہ اورکفر و کفار کو زیر کرنا اور انہیں ذلیل رکھنا دین حق کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس سے کفار جلتے اور مسلمانو ں کے سینے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا ابوجہل کے اونٹ کو بطور خاص قربانی کے لیے لے جانا اسی مقصد سے تھا۔ اور یہ مضمون سورہ توبہ ی کی آیت 14 اور 15 میں بھی آیا ہے فرمایا: ﴿قـٰتِلوهُم يُعَذِّبهُمُ اللَّهُ بِأَيديكُم وَيُخزِهِم وَيَنصُركُم عَلَيهِم وَيَشفِ صُدورَ قَومٍ مُؤمِنينَ * وَيُذهِب غَيظَ قُلوبِهِم .................. ﴾ ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دل کا غم وغصہ دور کرے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث حسن) .إسناده: حدثنا النفيلي. ثنا محمد بن إسحاق. وثنا محمد بن المنهال: ثنا يزيد بن زُرَيْع عن ابن إسحاق- المعنى-؛ قال: قال عبد الله- يعني: ابن أبي نَجِيحٍ-: حدثني مجاهد عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن إسحاق- وهوصاحب السيرة -، وقد أخرج له مسلم متابعة، ثم هو مدلس وقد عنعنه، لكنه قد صرح بالتحديث في رواية عنه، وهو إلى ذلك لم يتفرد به كما يأتي.والحديث أخرجه البيهقي (5/229) من طريق أخرى عن محمد بن المنهال... به، وفي روايته:من ذهب.وهذه الرواية عندي شاذة؛ لمخالفتها لسائر الروايات الآتية.ثم أخرجه البيهقي، وكذا الحاكم (1/461) من طريق عبد الأعلى بن عبد الأعلى عن محمد بن إسحاق: حدثني عبد الله بن أبي نجيح... به، وقال: حديث صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!وأخرجه أحمد (1/261) : حدثنا يعقوب: حدثنا أبي عن ابن إسحاق:حدثني عبد الله بن أبي نجيح... به.فقد صح عن ابن إسحاق تصريحه بالتحديث، فثبت الحديث؛ والحمد لله.وأما ما أخرجه البيهقي من طريق أبي جعفر المسْتَعِينِي: ثنا عبد الله بن علي بن المديني: حدثني أبي قال: كنت أرى أن هذا من صحيح حديث ابن إسحاق، فإذا هو قد دلسه! حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد عن أبيه عن محمد بن إسحاق قال: حدثني مَنْ لا أتهِم عن ابن أبي نجيح... قال علي: فإذا الحديث مضطرب !!
قلت: وهذا- مع معارضته لرواية الإمام أحمد- فإن عبد الله بن علي بن المديني ليس بالمشهور، بل قد غمزه الدارقطني؛ فقد روى الخطيب (10/9) عنه أنه قال في عبد الله هذا: روى عن أبيه كتاب العلل ؛ إنما أخذ كتبه وروى أخباره مناولةً، وما سمع كثيراً من أبيه؛ لأنه ما كان يُمَكِّنُة من كتبه .
قلت: فمثله لا يحتج به مع التفرد؛ فكيف مع المخالفة؛ فكيف إذا كان المخالف الإمام أحمد؟!وقد تابعه جرير بن حازم عن ابن أبي نجيح... به مختصراً: أخرجه أحمد(1/273) ، والبيهقي، وقال: وهذا إسناد صحيح؛ إلا أنهم يرون أن جريراً أخذه من ابن إسحاق، ثم دلسه، فإن بيَّن فيه سماع جرير من ابن أبي نجيح ؛ صار الحديث صحيحاً !
قلت: جرير ثقة حافظ؛ احتج به الشيخان، ولا عيب فيه سوى أنه اختلط في آخر عمره، ولكنه لم يحدث في اختلاطه ، ولم يتهمه أحد بالتدليس؛ سوى يحيى الحماني، وهو متهم بسرقة الحديث، فلا قيمة لجرحه! وكم من حديث لجرير هذا في الصحيحين معنعناً محتجاً به!ولذلك فإني لا أرى وجهاً لتعليق صحة الإسناد بتبيين سماعه فيه. والله أعلم.وتابعه ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس... به مختصراً:أخرجه أحمد (1/234 و 269) ، وابن ماجه (2/264) ، والبيهقي (5/234و 9/269) .وفي رواية له عنه: عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير عن ابن عباس.وعن الحكم... به. وقال: رواه مالك بن أنس في الموطأ ... مرسلاً، وفيه قوة لما مضى .وهو في الموطأ (1/341) ؛ وهو مرسل صحيح الإسناد.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
هَدْىھاء کے فتحہ ‘دال کے سکون کے ساتھ یا ھاء کے فتحہ دال کے کسرہ اور یاء کی شد کے ساتھ‘وہ جانور (اونٹ‘گائے یا بکری) جو اللہ کے تقرب کے لیے حرم کی طرف ہدیہ بھیجا جائے اور وہاں قربان کیا جائے(ھدی)کہلاتا ہے۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال قربانی کے جانور (ساتھ) لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی ان قربانیوں میں ایک اونٹ وہ بھی تھا جو ابوجہل کا تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا چھلا پڑا ہوا تھا۔ ابن منہال نے کہا: سونے کا چھلا پڑا ہوا تھا۔ نفیلی نے اضافہ کیا کہ آپ اسے مشرکوں کو جلانے کے لیے لے گئے تھے۔ (کہ ان کے سردار کا اونٹ محمد ﷺ کے قبضے میں ہے۔)
حدیث حاشیہ:
(1) جانوروں کی نکیل وغیرہ میں تھوڑی بہت چاندی کا استعمال مباح ہے۔ (2) اسلام اور مسلمانوں کا اظہار وغلبہ اورکفر و کفار کو زیر کرنا اور انہیں ذلیل رکھنا دین حق کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس سے کفار جلتے اور مسلمانو ں کے سینے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا ابوجہل کے اونٹ کو بطور خاص قربانی کے لیے لے جانا اسی مقصد سے تھا۔ اور یہ مضمون سورہ توبہ ی کی آیت 14 اور 15 میں بھی آیا ہے فرمایا: ﴿قـٰتِلوهُم يُعَذِّبهُمُ اللَّهُ بِأَيديكُم وَيُخزِهِم وَيَنصُركُم عَلَيهِم وَيَشفِ صُدورَ قَومٍ مُؤمِنينَ * وَيُذهِب غَيظَ قُلوبِهِم .................. ﴾ ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دل کا غم وغصہ دور کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال ہدی۱؎ کے لیے جو اونٹ بھیجا ان میں ایک اونٹ ابوجہل کا۲؎ تھا، اس کے سر میں چاندی کا چھلا پڑا تھا، ابن منہال کی روایت میں ہے کہ ”سونے کا چھلا تھا“ نفیلی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ ”اس سے آپ ﷺ مشرکین کو غصہ دلا رہے تھے۳؎.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ’’ہدی‘‘: حج میں ذبح کے لئے لے جانے والے جانور کو کہتے ہیں۔ ۲؎: یہ اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں بطور غنیمت ملا تھا۔ ۳؎: تاکہ یہ تأثر دیا جائے کہ مشرکین کے سردار کا اونٹ مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): In the year of al-Hudaybiyyah, the Apostle of Allah (ﷺ) included among his sacrificial animals a camel with a silver nose-ring (Ibn Minhal's version has gold) which had belonged to AbuJahl (the version of an-Nufayli added) "thereby enraging the polytheists".